ayazmorris@gmail.com
ادب اور انسان کا گہرا رشتہ ہے اور اس رشتہ کی احساس ادیب ہوتا ہے جو اپنے فن سے ادب کے ذریعے انسانوں کو جوڑتا ہے۔ادب کی خوبصورتی اور کمال ہے کہ یہ رنگ،نسل،مذہب،علاقے،زبان اور حدود و قیود سے بالا تر ہو کر انسانی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔پاکستان کی مٹی اس اعتبار سے بڑی زخیز رہی ہے کہ اس میں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں نے ادب کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور اپنے ادبی قد کاٹھ سے معاشرے اور ادبی حلقوں میں منفرد پہچان بنائی ہے۔آج ہم ایک ایسے ہی باکمال ادیب کی زندگی، شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
؎ آسماں بس میں جو ہوتا تو گھٹا کر دیتا
تیری خاطر میں شرابوں کو فضا کر دیتا
بس کہ یزداں نہ ہوا ورنہ مرے رند خراب
میں تجھے اپنے مقابل کا خُداکر دیتا
یہ شاندار شعر کسی معروف شاعر کا نہیں بلکہ معروف ڈرامہ نگار ڈاکٹر ڈنیس آئزک کا ہے۔ یہ نام بہت سے لوگوں کیلئے بڑا مانوس ہو گا جنہوں نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ان کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ مجھے بھی اتنا یاد ہے کہ میں نے بھی 90ء کے آخری حصہ میں پی ٹی وی پر ان کے کچھ ڈرامے دیکھے تو آخر میں ڈاکٹر ڈنیس آٗئزک کا نام پڑنے کو ملتا تھا۔ جیسے وقت نے کروٹ بدلی ہم بھی کراچی آگئے۔ جہاں کیبل کی وجہ سے پی ٹی وی دیکھے عرصے بیت گیا۔کئی سالوں بعد کئی لوگوں سے ڈاکٹر ڈنیس آئزک کا نام سنا تو بچپن کا زمانہ یاد آیا پھر انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ کینیڈا چلے گئے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کے انتقال کی خبر ملی تو یہ ملال ہوا کہ زندگی میں ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی اور نہ ہی ان سے کبھی بات ہوئی۔
اگرچہ وہ اپنے لکھے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے پاکستان بھر میں مقبول تھے لیکن پشاور میں اپنے قریبی دوستوں کے لیے ان کا پہلا حوالہ ان کی شاعری اور موسیقی تھا۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں ان کے ہم جماعت اعجاز نیازی جو پی ٹی وی پشاور کے پروگرام مینیجر بھی تھے یاد کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک اس وقت کی بورڈ بجایا کرتے تھے اور کالج کی کینٹین میں سردیوں کی دھوپ میں گھنٹوں اپنے دوستوں کے ساتھ شاعری اور موسیقی گاتے گزارتے تھے۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی ہم عصر ڈرامہ نگار غزالہ اورکزئی جو اب نیویارک میں مقیم ہیں اپنی یونیورسٹی کے دنوں میں ساتھی طالب علموں کے ساتھ موسیقی کی خوبصورت شامیں یاد کرتی ہیں جہاں ڈاکٹر ڈینس آئزک اور ان کے دوست
''The Bachelors'' نامی بینڈ پرفارم کرتا تھا۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کی بیٹی شالین بتاتی ہیں کہ اس بینڈ کے ذریعے ان کے والد اور والدہ کی ملاقات ہوئی اور ڈینس اور ماریہ کے درمیان محبت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ماریہ ڈینس آج بھی محفوظ ہیں۔ شالین کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کی ایک دوسرے سے محبت شادی سے پہلے طویل عرصے تک قائم رہی اور انہوں نے اپنے والد اور والدہ کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا یا اونچی آواز میں بات نہیں سنی۔
یہ بھی پڑھیں؛ ”ڈیجیٹل میڈیا اور لیڈرشپ“ (ایاز مورس)
ڈاکٹر ڈینس آئزک نے اپنی طبی تعلیم خیبر میڈیکل کالج سے مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے شعبہ ریڈیالوجی سے وابستہ رہے۔ نیز ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ایک مہربان، ہمدرد آدمی کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور ٹیلی ویژن سے وابستہ کسی بھی فرد کو کوئی طبی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ ان تک پہنچتے اور وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ شالین نے اپنے بچپن کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار رات کو جب کوئی دوست یا جاننے والا ان کے والد کو فون کرتا تو فوراً مدد کے لیے باہر آجاتے تھے۔ ان کی طبیعت کی نرمی اور حساسیت ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک 11 جنوری 1950 کوپشاورکے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے خیبر میڈیکل کالج پشاور سے گریجویشن مکمل کی اور 25 سال تک لیڈی ریڈینگ ہسپتال پشاور میں ریڈیالوجسٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔
2000ء میں انہوں نے کینیڈا ہجرت کرنے سے پہلے اردو پی ٹی وی کے ایک نئے ڈرامہ نگار اور شاعر کے طور پر شہرت حاصل کی تھی کیونکہ وہ ادبی تخلیقی صلاحیتوں کے شوق کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور شاعری، افسانہ اور موسیقی سمیت مختلف ذوق رکھتے تھے۔
مختلف ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ڈینس آئزک پشاور شہر کے ارد گرد ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ ادبی اداروں سے وابستہ تھے جن میں حلقہ ارباب ذوق، پشاور، خبر نظر پشاور اور پشاور کرسچن لٹریری سوسائٹی شامل ہیں۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک کو ان کی ادبی خدمات کی بدولت کئی ایوارڈز ملے جن میں 1985 میں ہزارہ آرٹس کونسل، 1978 اور 1979 میں پی ٹی وی ایوارڈ فار ایکسیلینس، 1979 میں بہترین اسکرین پلے رائٹر کا نیشنل ایوارڈ، 1995 میں پاکستان کرسچن آرٹس کونسل، 1996 میں کشمیری ادبی ایوارڈ، جوشوا فضل الدین ایوارڈ، 1996 میں پی ٹی وی ایوارڈ۔ 1997 میں گولڈن جوبلی میڈل اور 2010 میں بزم فانوس ایوارڈ کینیڈاشامل ہیں۔
ان کے بہترین ڈراموں اور تخلیقی کاموں کی فہرست میں باریش، دوراہا، کروبی، کرب، سلاخیاں اور پی ٹی وی اسلام آباد کے اردو ڈرامے ”گیسٹ ہاؤس“ کے لیے چند یادگار اقساط شامل ہیں جس کے بعد پی ٹی وی پشاور سینٹر کے لیے ان کا آخری پروجیکٹ ”تھوڑی دیکھ زندگی“ شامل ہے۔اس کے علاوہ، انہوں نے اردو فیچر فلم ”انتہا“ کے لیے اسکرین پلے اور اسٹوری لائن لکھی جسے معروف فنکارہ ثمینہ پیرزادہ نے پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا تھا۔پروفیسر ناصر علی سید کے مطابق، ڈاکٹر ڈنیس آئزک صحت کے متعدد مسائل کا شکار تھے اور وہ گزشتہ چند ہفتوں سے ڈیمنشیا سمیت سنگین مسائل کے لیے زیر علاج تھے۔ان کا عظیم ادبی کارنامہ فرانسیسی کلاسک ایڈونچر ناولAround the world in eighty days‘ کا اردو ترجمہ تھا۔
سرفراز تبسم اپنے آرٹیکل ”ڈاکٹر ڈینس آئزک کہاں ہیں؟“ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی دیگر خصوصیات کا بھی علم ہوا کہ وہ جتنے اچھے ڈرامہ نگار ہیں اتنے ہی باکمال شاعر، مصّور، موسیقار اور گائیک بھی ہیں ایک ورکشاپ کے دوران انہوں نے اپنی شاعری اپنی کمپوزیشن میں گیت اور غزلیں بھی گائیں ان کے اتنے روپ دیکھ کرمجھے دیر تک واقعی حیرت ہوتی رہی۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے ایک مضمون ”ڈاکٹر ڈینس آئزک کی کینیڈا میں مشکل زندگی“میں ڈینس آئزک کی شاعری اور موسیقی سے ہی نہیں ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر تھا۔ وہ ایک مہذب انسان تھے جن کے سینے میں ایک محبت کرنے والا دل دھڑکتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ حساس دل زمانے کی بے حسی سے بہت دکھی ہو گئے تھے اور میں ان کے بارے میں سوچ کر بھی دکھی ہو جاتا ہوں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا کہنا ہے کہ وہ خیبر میڈیکل کالج کے زمانے سے ڈاکٹر ڈنیس آئزک کوجانتے ہیں۔وہ ڈاکٹر ڈنیس آئزک سے پہلی دفعہ خیبر میڈیکل کالج پشاور میں ملے تھے۔ڈاکٹر ڈنیس آئزک ان سے عمر میں ایک سال بڑے تھے۔ لیکن کالج میں ایک سال جونیئر تھے۔
ڈاکٹر ڈنیس آئزک اُس وقت ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور میوزک ڈائریکٹر اور کمپوزر کام کرتے تھے۔ان کا میوزک سے بہت زیادہ لگاؤ تھا وہ اس زمانہ میں شاعری اور غزلیں لکھتے تھے۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ان کے کسی سینئر نے انہیں کوئی ڈرامہ دیکھنے کو کہا جو کافی مقبول تھا۔لیکن اسے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر ڈنیس آئزک نے کہا کہ یہ کوئی خاص ڈرامہ نہیں اس سے اچھا ڈرامہ تو میں لکھ سکتا ہوں۔
جس پر ان کے سینئر نے ان سے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو تم کوئی ڈرامہ لکھ کر دکھاؤ۔ ڈاکٹر ڈنیس آئزک نے اس بات کو چیلنج کے طور پر لیا اور پہلا ڈرامہ لکھا جو بے حدمقبول ہوا باقی پھر تاریخ ہے۔۔۔
21 جنوری 2022کو کینیڈا میں انتقال کرنے والے ڈاکٹر ڈنیس آئزک کو کینیڈا میں ہی سپرد خاک کیا گیا ہے۔ان کی وفات کے موقع پر وائس آف امریکہ اردو نے ایک خصوصی ڈاکومنٹری بنائی جس میں معروف اداکار عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ ”ڈینس اس وقت کے ایک ترقی پسند اور جدید طرز کے مصنف تھے۔اُن کے موضوع انتہائی جاندار ہوتے تھے۔ مثلا کروبی کا موضوع ایک منفرد موضوع تھا،ڈاکٹر ڈینس آئزک کا ڈرامہ ”کروبی“ سقوط ڈھاکہ پر پہلا ڈرامہ تھا۔اس وقت 1971 کے بارے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب اُنہوں نے اس پر ڈرامہ لکھا۔اگر آپ کو یاد ہو کہ کروبی کی کہانی ڈھاکہ میں شروع ہوئی تھی۔جنگ چل رہی ہے اور یہ کرنل ہسپتال میں زخمی ہے تویہ ایک آرمی کرنل اور نرس کی محبت کی کہانی تھی۔“سابق ڈائریکٹر پروگرامز پی ٹی وی طارق سعید کا کہنا ہے۔ ”ڈاکٹر ڈینس آئزک کے ڈراموں میں صرف ڈائیلاگ اور اسٹوری نہیں ہے بلکہ ایک مکمل اسکرین پلے ہے جس کو پڑھ کر آپ پورا ڈرامہ تصویری شکل میں آپ کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔“ہم دونوں نے مل کر کروبی کیا اس کے بعد ایک اور سیریل کیا اور بعد تیسرا سیریل ہالا کیا اس کے بعد ہم نے ایک آزادسیریز کی جس کا نام ”پہلی سی محبت“رکھا تھا۔سینئر ادکارنجیب اللہ انجم کہتے ہیں کہ”ڈاکٹر ڈنیس آئزک میں ایک کمال یہ تھا کہ ان کی تحریر میں ایک ردھم ہوتا تھا۔ اگر ایک یا دو پیج کے ڈائیلاگ ہوتے تو بڑی آسانی سے یاد ہو جاتے تھے۔“
پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسراعجاز نیازی ڈاکٹر ڈینس آئزک کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”جوں جوں کاسٹ ہوتی تھی اس کے زبان ردھم کے مطابق ڈائیلاگ ہوتے تھے۔مجھے یہ تجربہ ہوا کیونکہ وہ ہر پریکٹس میں موجود ہوتے تھے۔“
صحافی و مزاح نگار مرزا یسین بیگ کہتے ہیں کہ ”اس زمانے کے رائٹرز میں بانو قدوسہ اور اشفاق احمد کے بعد اگر کسی رائٹر نے اپنے اخلاق،ملنساری اور اپنی طبیعت کے اچھے پن سے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر ڈنیس آئزک تھے۔“
ٹی وی اینکر اور مصنفہ روبینہ فیصل کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ڈینس آئزک کی شخصیت میں اتنی شہرت کے باوجود ایک دروایشی اور سادگی تھی۔
اداکار وشاعرہ بشری فرح کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ کینیڈا چلے گئے اور ایک گمنام زندگی بسر کی۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر خالدسہیل کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈنیس آئزک کی خواہش اور کوشش ہوتی کہ ان کے ڈراموں کے نام ’ک“ سے شروع ہوں۔وہ ایک نیک دل اور نفیس انسان تھے بلکہ ان کے بارے میں یہ کہوں گا کہ وہ
Thorough Gentleman تھے جن کا دل انسانیت کیلئے دھڑکتا تھا۔وہ اپنے مسیحی ایمان اور چرچ کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے۔وہ کوائر کا بھی حصہ رہے اور چرچ کی کئی ٹریننگ میں بطور مقرر شرکت کرتے تھے۔
اس وقت رات کے دو بج چکے ہیں ایک طرف موبائل فون پر ڈاکٹر ڈنیس آئزک کی پر کشش تصویر دیکھ رہاہوں اور دوسری طرف ان کی زندگی میں یہ کالم لکھتے ہوئے لیپ ٹوپ پر ٹائپنگ کررہا ہوں۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیسے یقین کے ساتھ لکھے جارہا ہوں جسے میں نہ کبھی نہ دیکھا اور نہ ملا۔لیکن نہ جانے کیوں یہ احساس بڑی شدت سے محسوس کررہا ہوں کہ ڈاکٹر ڈنیس آئزک کے ساتھ میری رُوح کا گہرا تعلق ہے اور یہ لکھتے ہوئے لگ رہا جیسے وہ اپنی زندگی کی کئی ایسے پہلوؤں کو مجھ پر عیاں کررہے ہیں جیسے شاید میں مل کر ان سے کبھی نہ جان پاتا۔شاید اس لئے ہماری ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ کچھ ملاقاتیں ادھوری رہتی ہیں بلکہ ایسے ہی جیسے اُردو ڈرامہ نگاری میں ڈاکٹر ڈنیس آئزک کے خلا کوئی دوسرا پر نہیں کر سکتا یہ ہی ڈاکٹر ڈنیس آئزک کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ ہم سے جدا ہو کر بھی ہماری یادوں،زندگیوں اور روُحوں کاحصہ بن گئے ہیں۔وہ نئی نسل کیلئے اپنے فن اور ہنر متاثر سے کرنے کیلئے بہترین رول ماڈل ہیں۔
ان کا شعر کیا کمال ہے۔
؎ گھر سے چلے ارادہ منزل لیے ہوئے
منزل ملی تو اپنے ارادے بدل گئے
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation