![]() |
بنگلہ دیش کی مذہبی اقلیتیں انتخابات سے انصاف اور تحفظ کی امید رکھتی ہیں |
ڈھاکہ: جیسے جیسے بنگلہ دیش عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے، وہاں کی مذہبی اور نسلی اقلیتیں محتاط امید کے ساتھ ایک بہتر مستقبل کی خواہاں ہیں، اگرچہ سیاسی عدم استحکام اور ماضی کے تجربات نے ان کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
متوقع انتخابات 2026 کے وسط تک متوقع ہیں، جن کا مقصد گزشتہ سال اگست میں پیش آنے والے سیاسی بحران کے بعد ایک نئی جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں طویل عرصہ حکمرانی کرنے والی وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو معزول کیا گیا۔
شیخ حسینہ کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ملک میں کشیدگی بڑھی، لیکن نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کی زیر قیادت عبوری حکومت نے شفاف انتخابات کی یقین دہانی کراتے ہوئے صورتحال کو نسبتاً مستحکم کر دیا۔
عبوری حکومت نے اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے 11 کمیشن تشکیل دیے، جو آئین، عدلیہ، انتخابی نظام، پولیس، خواتین کے امور، اور پبلک ایڈمنسٹریشن جیسے اہم شعبوں میں بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اقلیتوں کی نمائندگی اور تحفظ کی اُمید
بدھ، ہندو اور مسیحی برادریوں کے رہنما پر امید ہیں کہ نئی اصلاحات کے ذریعے ایک سیکولر اور جامع جمہوریت میں انہیں بہتر نمائندگی حاصل ہو گی۔
راجشاہی ڈائیسیز کے بشپ گیرواس روزاریو نے کہا، "اقلیتوں کو کبھی بھی مکمل تحفظ حاصل نہیں رہا، اور خاص طور پر قبائلی برادری کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔"
چٹگرام پہاڑی علاقوں (CHT) میں حالیہ پرتشدد جھڑپوں کے باعث متعدد افراد جاں بحق، درجنوں زخمی، اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
مسیحی برادری پر حملے
بنگلہ دیش کرسچن ایسوسی ایشن کے صدر نرمول روزاریو کے مطابق اگست کے اوائل میں کچھ گرجا گھروں اور مسیحی خاندانوں پر حملے ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم نے فوری طور پر حکام کو آگاہ کیا اور مسیحی برادری کے تحفظ پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقلیتوں کے تحفظ اور شراکت داری کے لیے مخلص اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سیاسی نظام میں اقلیتوں کی جگہ
اگرچہ بنگلہ دیش کی بڑی سیاسی جماعتوں میں اقلیتوں کی موجودگی دیکھی جاتی ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ انہیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، خاص طور پر سیاسی محرکات اور زمین سے متعلق تنازعات میں۔
کیتھولک بشپس کانفرنس آف بنگلہ دیش (CBCB) کے نائب صدر بشپ روزاریو کا کہنا تھا، "حالیہ سیاسی حالات کے باوجود مسیحی برادری معمول کی زندگی گزار رہی ہے، لیکن خوف ابھی بھی موجود ہے۔"
آبادی کا تناسب
بنگلہ دیش کی آبادی 170 ملین سے زائد ہے، جن میں تقریباً 90 فیصد سنی مسلمان، 8 فیصد ہندو، اور باقی 2 فیصد دیگر اقلیتیں ہیں۔ مسیحی آبادی کا تخمینہ تقریباً 600,000 افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے نصف نسلی قبائلی پس منظر رکھتے ہیں۔
چرچ اور مسیحی ادارے مقامی انتظامیہ سے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ برادری کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
قانون سازی کی ضرورت
بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں 300 منتخب نشستوں کے علاوہ خواتین کے لیے 50 اضافی نشستیں مختص ہیں۔ اقلیتوں نے طویل عرصے سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں مقرر کی جائیں، اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ قانون بنایا جائے، اور ایک قومی اقلیتی کمیشن قائم کیا جائے۔
ایڈوکیٹ گووندا چندر پرمانک، جو بنگلہ دیش ہندو گرینڈ الائنس کے سکریٹری ہیں، کا کہنا ہے کہ مناسب جمہوری تحفظات کے بغیر اقلیتیں ہمیشہ کمزور رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا، "ہم کسی صدر یا وزیر اعظم کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن پارلیمنٹ میں ہماری مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔"
مقامی شناخت کی پہچان
بنگلہ دیش میں مقامی لوگ، جو 50 سے زائد نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں آئینی طور پر "مقامی افراد" کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر شانتو باروا، جو ایک بدھ مت پیروکار ہیں، نے امید ظاہر کی کہ عبوری حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔
خبر کا ماخذ؛ ؛یہ رپورٹ یو سی اے نیوز UCA News سے ترجمہ شدہ اور مرتب شدہ ہے۔
آپ اس تحریر کے علاوہ بنگلا دیش میں اقلیتوں کے حالات کے متعلق کیا جانتے ہیںَ؟
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation