پاکستان کے مغرب میں موجود افغانستان میں اقتدار پر طالبان کے قبضے اور پاکستان میں طالبان کی حمایتی سرکار اور پھر پاکستان میں پاکستان تحریک لبیک جیسے انتہاپسند گروھوں کا ریاستی حکومتی سیاسی اور سماجی سطح پر بڑھتا ھوا غلبے اور اثرورسوخ کے پیش نظر پاکستان میں ھر ذی شعور انسان مگر بالخصوص پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں ھندووں اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے گبھرانے کا وقت ھے۔
یہ بھی پڑھیں؛ڈاکٹر روتھ فاؤ- انسانیت سے محبت کا دوسرا نام ، تحریر؛ شکیل انجم ساون
طالبان ھوں تحریک لبیک پاکستان یا کوئی اور انتہاپسند گروہ ! یاد رھے کہ یہ سب تشدد پر یقین رکھتے ھیں یہ انسانی حقوق بالخصوص مذھبی آزادیوں پر یقین نہیں رکھتے اور اقلیتوں اور خواتین کے برابری کے حقوق کو نہیں مانتے۔ یہ طے ھے کہ ان کی موجودگی میں اقلیتوں کے حقوق ھمیشہ خطرے میں رھیں گے۔
ایسی کڑی اور تشویشناک صورتحال میں اقلیتوں کی لیڈرشپ کیا اور کیسا کردار ادا کر رھی ھے اس کا جائزہ لینے کے کوشش کرتے ھیں۔۔
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ خیال ھے کہ اقلیتوں میں لیڈرشپ کا فقدان ھے جبکہ آس پاس نظر دوڑائیں تو سیاسی سماجی اور مذھبی لیڈرز کی بہتات نظر آتی ھے۔ ھاں لیڈرز بہت ھیں مگر لیڈر شپ کا معیار پرکھنے کا ھر ایک کا اپنا اپنا انداز اور کرائٹیریا ھے۔
ضرور پڑھیں؛”گاؤں کی گلیوں میں“ - ایاز مورس
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد خطے کی بگڑتی سیاسی و سماجی صورتحال میں اقلیتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑنے کے لئے اقلیتوں کی لیڈرشپ کا کسی قسم کا کوئی مشترکہ قومی سطح کا مشاورتی یا فکری اجلاس دیکھنے کو نہیں ملا۔ قیادت کو حالات کی سنگینی کا اندازہ یا احساس نہیں یا کوئی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں یا پسند ناپسند میں پھنسے ھوئے ھیں ؟
اقلیتںوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی ورکر اور رھنما سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگز تک محدود نظر آتے ھیں اور اس پر خوش اور مطمعن بھی۔ یہ جانے بنا کہ ان اقلیتی ونگز کا اقلیتوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ھو رھا ھے اور اس سے ھمارا مساوی حقوق اور مساوی شہرہت کا مطالبہ مزید کمزور ھوتا چلا جاتا ھے۔
حکومت کا حصہ بنے سیاسی رھنما چاھے وہ پارلیمنٹ میں ھیں یا پارلیمنٹ سے باھر انکے مطابق اقلیتوں کے لئے کوئی مسئلہ ھے ھی نہیں یہ تک کہہ دیتے ھیں کہ سب اچھا ھے یہ جنت ھے اور اقلیتوں کے لوگ نان ایشوز کو ایشوز بناتی ھیں۔ حتی کہ جبری تبدیلی مذھب کے ایشو پر بھی حکومت کے حمایتی کچھ لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا گیا ھے کہ یہ ایک نان ایشو ھے۔ جبکہ اقتدار سے باھر سیاسی رھنما انہی ایشوز پر حکومتی لوگوں کو آڑے ھاتھوں لے رھے ھیں جن پر وہ اپنے دور اقتدار میں خاموش تھے یا کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اٹھارویں ترمیم سے لے کر پارلیمنٹ کے مشترکہ حالیہ اجلاس میں تاریخی قانون سازی میں کہیں بھی اقلیتوں کے مسائل کے حل کا ایجنڈا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا مگر ھر طرف خاموشی ھے۔
سماجی رھنماوں یا تنظیموں نے اپنے آپ کو یا تو پروجیکٹ بیسڈ سرگرمیوں تک محدود کیا ھوا ھے یا وہ ایسے کاسمیٹک زدہ پروگراموں تک محدود ھیں جن کا پاکستان کی موجودہ سنگین تر صورتحال میں کوئی خاطرخواہ فائدہ نظر نہیں آ رھا جن پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ھے۔ سماجی تحریکوں کا رجحان ناپید ھے جبکہ ان ترجیحات کی وجہ سے نوجوانوں میں سیاسی سوچ کا فقدان تیزی سے بڑھ رھا ھے والنٹیرازم کا جذبہ کمزور ھو چکا ھے جو کسی طور بھی ایک پسی ھوئی اور کمزور طبقے کے لئے اچھا شگون نہیں ھے۔
ماضی میں اقلیتوں کی مذھبی قیادت سماجی معاملات میں بڑھ چڑھ کر رسپانس کیا کرتی تھی جو کچھ عرصے سے دیکھنے کو نہیں مل رھا۔ موجودہ صورتحال میں مین سٹریم چرچز کی طرف سے اقلیتوں کے زیرگردش ایشوز پر کوئی مشترکہ اقدام یا رسپانس آنا چاھئے تھا جو نہیں آیا۔
اقلیتوں کی قیادت کے میدان میں کچھ پاپولر رجحانات نمایاں ھیں۔جو انتہائی نقصان دہ ھیں جس میں سے کچھ کا ذکر کرنا ضروری ھے۔ مثال کے طور پر " بس میں میں میں کہنا بس میں ھی ٹھیک ھوں میرا کام ھی ٹھیک ھے میں ھی چوھدری ھوں باقی سب غلط ھیں اور کسی دوسرے کی صلاحیت، کام اور قیادت کو نہ ماننا اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے لیگ پلنگ (ٹانگیں کھینچنا)، اگر کوئی ھمت اور جرات کرکے بات کرے یا آگے آئے تو اسکو ڈرانا دھمکانا اور اسکی راہ میں روڑے اٹکانا"۔ ان رجحانات کو مائنس کرنا ضروری ھو چکا ورنہ مزید تباھی کے لئے تیار رھنا ھوگا۔
یہ بھی پڑھیں؛کرسمس کی حقیقی خوشی کیا ہے؟ تحریر: کرسٹوفر کرسٹی
وقت اور حالات کا تقاضا ھے کہ اقلیتوں کی مذھبی سماجی اور سیاسی قیادت مل بیٹھے غوروخوض کرے حکمت عملی بنائے کہ اپنے لوگوں کے حقوق کا اس صورتحال میں کیسے دفاع کرنا ھے شناخت کو کیسے بچانا اور بحال رکھنا ھے۔
اختلاف رائے بھی رھے گا ہسند اور ناپسند بھی ھمیشہ رھتی ھے اور رھے گی مگر اپنے لوگوں کے لئے ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور قیادت کو قبول کرکے آگے بڑھنا ھی فائدے کی بات ھے۔ مینیمم ایجنڈے پر اکٹھا ھونا ناگزیر ھو چکا ھے۔
مظلوموں کا اکٹھے ھو جانا ھی دراصل انکی بہتری کی ضمانت ھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation