ایک مرتبہ پھر اپنے گاؤں لوریتوچک نمبر 270ٹی ڈی اے لیہ میں ہوں۔اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اس کراچی شہر کی بے ہنگ اور تیز رفتار زندگی میں سے وقت نکال کر اپنے گاؤں میں سال کے چند چکر لگا لیتا ہوں۔اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرلیتا ہوں اور زندگی کو جینے کی وجہ ازسر نو دریافت کر لیتا ہوں۔یہ امر اور گلیوں کا سفر اپنی ذات کی پہچان اور شناخت کا سفر ہوتا ہے جو مستقبل کی مسافت کیلئے نہایت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
اپنے بچپن سے جڑی یادوں اور جگہوں کو آج شعور کی عمر میں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ اور اس کا اپنے ارد گرد موجود دنیا کو دیکھنے کا تجربہ ہی اس کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظرپختہ کرتا ہے اور اس کی محدود دنیا کا تعین کرتا ہے۔وہ جگہیں اور چیزیں جو بچپن میں بڑی خوبصورت اور بھلی معلوم ہوتی تھیں آج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی نہیں تھیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہی بہت محدود تھا اس لئے ہمیں چھوٹی چیزیں اور جگہیں بھی بہت بڑی لگتی تھیں۔
خیر گاؤں تو اب پہلے سا نہیں رہا اور رہ بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ہم ویسے نہیں رہے۔
بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن دل کے دریچوں میں کہیں سے آواز آتی ہے کہ کچھ نہیں بدلا۔ بس ایک منظر آج بھی دل کو ویسے ہی بھاتاہے جیسے بچپن میں دلکش لگتا تھا۔شام کو اپنے گھر کے عقب سے سورج کے غروب ہونے کا خوبصورت منظر! دل کرتا بس سورج کو ڈھلتے دیکھ کر ہی عمر ڈھل جائے۔کبھی کبھی یہ عجیب خواہش دل میں ابھرتی ہے کہ کسی ایسے شخص سے بس باتیں ہی کئے جاؤں جو کہیں میرے بچپن کے سفر کا گواہ تھا،لیکن اب ایسا ممکن کہاں! یار دوست سب زندگی اور حالات کی ستم گریفی سے لڑنے شہروں میں آبادہو چکے ہیں۔اگر گفتگو کا موقع ملے بھی تو صرف موجودہ زندگی کے معاشی مسائل کا۔
بچپن کا کتھارس ایسا روگ ہے جو شہری لوگوں کو کہاں سمجھ میں آئے گا، اس لیے میری بیوی اکثر یہ بات کہتی ہے کہ تم مکمل شہری ہو کر بھی اپنے گاو¿ں کے بارے میں بچوں کی طرح سوچتے ہو۔ میں اسے بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی،کیونکہ ہجرکے غم سے واقف نہیں ہو۔ یہ غم لاعلاج ہے کیونکہ یہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھتا جاتا ہے۔
گاو¿ں کے بارے میں اپنے جذبات و احساسات کو بیان کرتے ہوئے اکثر اپنے مقصد سے ہٹ جاتا ہوں۔
اور گاؤں کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کر پاتا۔ہمارے گاو¿ں نے جہاں بہت ترقی کی ہے وہاں کئی بنیادی باتیں اور سہولیات ہیں جن کی فراہمی کے بغیر ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہیں کہہ سکتے۔
سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ لڑکوں کے سکول کا ہے۔لڑکوں کیلئے گاؤں میں معیاری اور مکمل ہائی سکول نہ ہونا ہمارے گاؤں کے مستقبل اور ہمارے رویوں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
دوسرا بنیادی اور انتہائی اہم مسئلہ صحت کے حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے۔کتنے افسوس،بلکہ شرم کی بات ہے کہ ہمارا گاو¿ں جو میڈیکل کی سہولیات کے لئے ایک ماڈل ولیج تھا آج اپنے باسیوں کو بنیادی سہولیا ت کی فراہمی سے محروم ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ،گاؤں میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا ہے۔یہ مسئلہ شاید ہماری نظر میں سنجیدگی کا باعث نہ ہو لیکن یہ ہمارے گاؤں کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔جو چیزہمارے گاؤں کے اتحاد اور ترقی کا باعث تھا اب وہ ہماری کمزوری کی وجہ بن رہا ہے۔یہ مسئلہ نسلوں، خاندانوں اور وراثت کی تقسیم سے بھی خطرناک ہے۔اگر یہ تعین نہ کیا گیا اور اس کا ڈائیلاگ کے ذریعے حل نہ نکالاگیا تو اس کے نتائج بڑے سنگین ہوں گے۔
چوتھا مسئلہ نمبرداری کا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ یہ کسی کی جاگیرداری نہیں ہے۔قانونی کاروائی کے مطابق جو شخص بھی نمبرداری کا حقدار ٹھہرتا ہے اسے قبول کیا جائے اور بھر پور انداز میں سپورٹ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں؛زندگی سے بڑے لوگ - ایاز مورس
پانچواں مسئلہ گاؤں کی سیاسی قیادت کے طرزِ انتخاب اور طرزِعمل کا ازسرِ نو جائزہ لینے کا ہے۔گلی،محلے اور خاندان سیاست سے باہر نکل کر ضلع سیاست میں شمولیت اور اجتماعی لائحہ عمل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چھٹا مسئلہ، گلیوں کی صفائی کا ہے۔مجھے یہ لکھتے ہوئے انتہائی دکھ اور کرب ہو رہا ہے کہ ایک نقشہ کے مطابق قائم گاؤں کی سٹرکیں خستہ حالی کا شکار ہورہی ہیں اور گندگی کا سبب ہیں۔لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کے باہر سٹرک پر باتھ روم کے گٹر بناکر گلیوں کو تنگ کر دیا ہے اور گھرکا پانی گلیوں میں چھوڑ کر گلیوں کو گنداکیا ہے۔اور توا ور اپنے شاندار اور خوبصورت گھر وں کے باہر گلی میں رات میں ایک انرجی سیور لگانے کی بھی توفیق نہیں۔
ساتواں مسئلہ گاؤں اور چرچ کی کئی اہم پراپڑٹی اور جگہوں کا بیکار اور زبوں حالی کاشکار ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
ان مسائل کے علاوہ بھی اور بہت سے بنیادی مسائل ہیں جو ہماری توجہ کے طلب گار ہیں۔جن کے جامع اور ٹھوس حل وقت کی اہم ضرورت ہیں۔بطور سوشل سائنٹسٹ میرا مقصد ان مسائل کی نشاہدی کرنا ہے لیکن ہم سب کو مل کر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ہمارا گاؤں ہمارا سرمایہ،فخر اور بزرگوں کی امانت ہے اس کی دیکھ بھال اور خدمت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے ہم سب اس بات کا عہد کر لیں اور متحد ہو کر کام کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation