ہم روزمرہ کی گفتگو میں متعدد محاورات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے ایک عام سنا جانے والا جملہ ہے:
"وہ زبان کا کڑوا ہے، لیکن دل کا برا نہیں۔"
یہ جملہ بظاہر کسی کے رویے کا دفاع کرتا ہے، لیکن اگر ہم ذرا گہرائی سے سوچیں تو یہ رویہ ہماری معاشرتی کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زبان کی کڑواہٹ کو دل کی صفائی سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
زندگی کے ہر موڑ پر ہمارا سب سے پہلا تعلق کسی انسان سے اُس کی زبان کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہم کسی کا دل تب دیکھ پاتے ہیں جب وہ شخص ہمارے قریب آتا ہے، لیکن زبان وہ ذریعہ ہے جو پہلے قدم پر ہمیں یا تو قریب لاتی ہے یا دور کر دیتی ہے۔
نرمی، شائستگی، اور لحاظ انسان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں۔ اگر دل صاف بھی ہو، لیکن الفاظ میں تلخی، بدتمیزی یا طنز ہو، تو وہ دل کی نیکی تک پہنچنے کی راہ خود زبان ہی بند کر دیتی ہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر دل واقعی صاف ہے، تو زبان اس کا عکس کیوں نہیں بن سکتی؟
ایک مہذب معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا ہے جب زبان، کردار کا آئینہ ہو۔ زبان اگر زہر اگلتی رہے، تو دل کی نرمی صرف ایک دعویٰ بن کر رہ جاتی ہے۔
ہمارے ہاں بچوں کو چھوٹی عمر سے یہی سکھایا جانا چاہیے کہ بات کرنے کا سلیقہ، لہجے کی نرمی، اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا، دل کی نیکی سے کم اہم نہیں بلکہ زیادہ اہم ہے۔
کیونکہ یہی چیز رشتے بناتی ہے، عزت دلاتی ہے، اور ایک مہذب معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم "زبان کا کڑوا، دل کا صاف" جیسے محاوروں پر نظرثانی کریں۔ دل کا اچھا ہونا اپنی جگہ، مگر زبان کا نرم اور شائستہ ہونا سماجی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ کیونکہ دل تک صرف خاص لوگ پہنچتے ہیں، لیکن زبان سے تو ہر کوئی آشنا ہوتا ہے۔
ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا:
کیا میں لوگوں سے ویسا ہی بات کرتا ہوں جیسا میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا جائے؟
اگر جواب "نہیں" ہے، تو ہمیں زبان کی اصلاح سے ہی دل کی نیکی کا سفر شروع کرنا ہوگا۔
یہ کالم ہر اس شخص کے لیے ایک یاد دہانی ہے جو دل کی نیکی کو زبان کی سختی سے چھپا کر جیتا ہے۔ نرمی، زبان کا زیور ہے—اسے سنوارنا سیکھیں۔
Thanks
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation