میرا نہیں خیال کہ میں آئندہ سیزن میں اپنی زمین پر گندم کاشت کروں گا۔ صرف اپنی ضرورت کے لیے تھوڑی بہت گندم کاشت کریں گے اور باقی رقبے پر آلو یا کوئی اور سبزی لگا دیں گے۔ رواں سال سخت محنت اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد میری گندم کی فصل اچھی تو ہوئی ہے لیکن مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ستر فیصد گندم ابھی بھی پڑی ہے، اس کو اونے پونے داموں آڑتھیوں کو فروخت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع وہاڑی کے کسان کلیم مشتاق کا۔ وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ سیزن میں انھوں نے چھ ایکٹر رقبے پر گندم کاشت کی تھی اور ان کی فی ایکٹر اوسط پیدوار 55 من کے قریب رہی ہے۔
’خیال تھا کہ فصل حکومت خرید لے گی تو اچھا فائدہ ہو گا۔ سوچا تھا کہ گندم کی کٹائی کے بعد تھوڑے اور پیسے خرچ کر کے زمین پر کپاس کاشت کریں گے اور آئندہ سیزن میں دوبارہ گندم۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ گندم پڑی ہوئی ہے اور حکومت اسے خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب آڑھتی ہیں جو گندم کی قیمت انتہائی کم لگا رہے ہیں۔‘
کلیم کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ گندم کا ذخیرہ زیادہ عرصے تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ’ہمارے علاقے میں اس وقت آڑھتی اس وقت 2900 سے لے کر3000 روپے فی من پر خریداری کر رہے ہیں جبکہ حکومت کا ریٹ 3900 روپے فی من ہے۔‘
کلیم کہتے ہیں کہ انھیں 25 سے 30 ہزار روپے فی ایکٹر نقصان سامنے نظر آ رہا ہے جو اُن کی ’کمر توڑ‘ کر رکھ دے گا۔
’یہ ایسی صورتحال ہے جس کا میں نے اور ہمارے علاقے کے کسانوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ فصل تو شاندار ہو مگر اس سے نہ تو منافع ہوتا نظر آ رہا ہو اور نہ ہی کوئی اس کا خریدار نظر آ رہا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation