باپ کی قربانیوں کا اعتراف - ڈاکٹر شاہد ایم شاہد



اقوام عالم میں رشتوں کا تقدس بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کوئی معاشرہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔کیونکہ ایک معاشرہ ہی ہے جو آئینے میں  اچھے اور برے کی تصویردکھانے میں اپنا مذہبی ، معاشرتی ، سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی حق ادا کرتا ہے۔یہ تہذیب کی کھلی تصویر ہے جسے دنیا کے ہر معاشرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نتیجہ مثبت نکلے یا منفی تاثر کا حامل ہو۔اعداد و شمار حقیقت کا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔اس ضمن میں  ہر مذہب کے ماننے والے اور نہ ماننے والے بھی باپ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔مذہبی ، تاریخی ،مذہبی اور انسانی لحاظ سے ہم سب فرزند آدم ہیں۔دنیا میں تمام سامی اور غیر سامی مذاہب باپ کی عزت و احترام کا واضح درس دیتے ہیں۔دنیا بھر میں ہر سال جون کے تیسرے اتوار باپ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن ایک باپ اور اولاد کے درمیان مکالمے کی فضا قائم ہوتی ہے۔باپ کی قربانیوں اور اولاد کی فرش شناسی کا معاملہ  تبادلہ خیال اور اظہار عقیدت کی صورت میں پروان چڑھتا ہے۔کوئی اس حقیقت کو جذبات کی مالا میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ پروتا ہے؟  کون اس میدان میں اپنے آپ کو کھڑا کرتا ہے؟ اس عمل سے ہر کسی کو صاف تصویر دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔اس دن کی یاد دوبالا کرنے کے لیے  ایمان و عمل کی روشنی میں ایک صیمیم  قلب کو  قلبی اطمینان حاصل کرنے کے لیے محبت بھرے جذبات زبان زد لانے کا موقع مل جائے گا۔اگر بال کی کھال ادھیڑ کر دیکھی جائے تو یہ ایک ناقابل فراموش مکالمہ ہے جس میں شدت اور جدت جیسے عناصر تبدیلی کو فروغ دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔اس اثنا میں  والدین اور بچوں کے درمیان محبتیں پروان چڑھنے کا موسم  آباد ہو جاتا ہے۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے وہ تمام ایام جن کا تعلق انسانیت ، خدمت ، ترقی ، بھلائی اور صحت عامہ سے ہے۔میں اسے اپنا اخلاقی فرض سمجھ کر عوام الناس کو  جذبات نگری کا قصہ سنا دوں۔ ہمیں پہلے یہ شرط طے کر لینی چاہیے کہ صرف جون کے مہینے میں ہی باپ کی عزت نہیں کرنی بلکہ ہر دن ان کی عزت و احترام کے لیے وقف کر دینا چاہے۔ آپ اس حقیقت سے انکار کریں یا اقرار کریں۔قوت فیصلہ آپ کے پاس ہے۔ پھر یہی فیصلہ ہمارے کانوں میں ہلکی سی سرگوشی کرے گا۔آپ یہ آواز سن کر خود فیصلہ کریں کہ قدرت کی آواز سننا کتنی دلکشی ہے۔سحر انگیز ہے۔آپ پرندوں کی آوازوں سے کتنا لطف اندوز ہوتے ہیں؟ 

 یہ تو باپ کی آواز ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں لبیک کہتے ہوئے نہ توشرمانا چاہیے۔نہ گھبرانا چاہیے۔نہ پیچھے ہٹنا چاہیے۔نہ ارد گرد دیکھنا چاہیے۔ بلکہ احساس کے لمحوں سے لپٹ کر باپ سے چپکے چپکے  محبت کا اظہار شروع کر دینا چاہیے۔کیونکہ تجربہ اور مشاہدہ کھوٹ کی کثافتیں الگ الگ کر دیتا ہے۔اس حقیقت کے پیچھے  مسئلہ اثر قبولیت اور حقائق کی چھان بین پر مبنی ہے۔ قدرت کاملہ نے باپ کے کندھوں پر خاندان کی کفالت کا ایک بوجھ رکھا ہوا ہے۔وہ فرش شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے  شب و روز گزارنے کا عادی بن جاتا ہے۔وہ حالات و واقعات کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔اس نے زمینی حقائق کی ریت پر سفر کیا ہوتا ہے۔ اسے درست اور نا ہموار جوئے کا پتہ ہوتا ہے۔وہ زمین کی دھول اور مٹی سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔اس نے مشکلات کی پگ ڈنڈیوں پر چلنے کی مشق کی ہوت ہے۔ بنجر زمین پر محنت کر کے اناج  جمح کیا ہوتا ہے۔ان ساری باتوں کے پس پردہ  اس کے کھرے پن اور خالص پن نے عزت و احترام کی جو عمارت قائم کی ہوتی ہے۔

وہ ناقابل فنا بن جاتی ہے۔ ٹھوس حالت میں موجود رہتی ہے۔ مائع میں تبدیل نہیں ہوتی۔ لہذا وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ  اس کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی پیمائش سے مبرا ہے۔دنیا کی چار سمتیں اس بات کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ باپ ایک چھوتے کردار کا نام ہے۔وہ ذمہ داریوں کا قرض ادا کرنے والا سپاہی ہے۔فرش شناسی کے عہدے پر فائز ہے۔ہر موسم کی تبدیلیوں کو برداشت کرتا ہے۔ روزانہ اپنے فرائض کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے بچپن سے بڑھاپے تک اپنی اولاد کی  فکروں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ وہ تھکتا ہے۔ نہ وہ بڑبڑاتا  ہے۔نہ وہ اپنی محنت کا احسان جتاتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے گھر کا سائبان ہے۔ہر دکھ اور مصیبت کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ اس امر کے باوجود بھی پریشان نہیں ہوتا اور نہ اپنی کسی تکلیف  کا اظہار کرتا ہے۔ حتی کہ اس کی آنکھوں کی چمک اور خاموش زبان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر بے بس ہے؟ اس کے پاؤں میں حالات کی بیڑیاں کس قدر پختہ ہیں ؟ وہ اتنا مجبور ہونے کے باوجود بھی چپکے چپکے حالات سے لڑتا رہتا ہے۔

میری دانست کے مطابق یہ لفظ اپنے اندر خزانوں کی کان رکھتا ہے۔ اسے کھودنے سے انوکھی بصیرت کی توانائی ، محنت کی کنجی ، تربیت کی لاٹھی  اور بے لوث محبت کا تاج محل مل جاتا ہے۔ اس کی سوچ سے خوبصورت شگوفے پھوٹتے ہیں۔ وہ گنہگار ہونے کے باوجود بھی جذبات کے پھول اور کلیاں بانٹتا رہتا ہے۔ ہونٹوں پہ مسکراہٹ کے پر پھیلاتا  ہے۔ وہ حالات کی مجبوریوں کا محنت کا عصا اٹھا کر مقابلہ کرتا ہے۔  

اپنی ذات کو مسخ کر کے عمر بھر کے لیے محنت کو اپنا شعور بنا لیتا ہے۔ اولاد کے لیے اپنی  لامتناہی محبت کا  دروازہ کھول دیتا ہے۔مشکلات کی پرواہ کیے بغیر شفق کی کرنوں سے پہلے گھر سے نکل جاتا ہے پھر رات کے تاریکی کے پہروں میں واپس لوٹتا ہے۔یہ کیسی کشش اور کرشمہ ہے کہ ایک باپ اپنے اندر خوبیوں کا جم غفیر رکھتا ہے۔ وہ اپنے وقت کو قربان کرتا ہے۔وہ اپنے لمحات قربان کرتا ہے۔ وہ اپنی دولت قربان کرتا ہے ۔ وہ اپنے جذبات قربان کرتا ہے۔ وہ اپنی محنت قربان کرتا ہے۔وہ اپنی سوچ قربان کرتا ہے۔وہ اپنا آرام قربان کرتا ہے۔وہ اولاد کی خاطر کوئی بھی پیشہ اختیار کر لیتا ہے۔مثلا ترکھان ، لوہار ، موچی ، مزدور ، کلرک ، استاد ، وکیل  ، میل نرس ، فیمیل نرس ، ڈاکٹر ، پروفیسر ، جج ، انجینیئر ، ڈرافٹ مین ، چوکیدار ، وارڈ بوائے ، سینٹری ورکر حتی الوسع اسے جو کچھ بھی کرنا پڑے۔وہ اولاد کی پرورش کے لیے کرتا ہے۔شب و روز محنت کا چراغ جلاتا ہے۔انہیں تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ہر وہ منصوبہ زیر غور رکھتا ہے جس میں بچوں کی بہتری ہو۔بچوں کو برے کاموں سے روکتا ہے۔غلطی پر ڈانٹتا ہے۔اصلاح کرتا ہے۔عزت و احترام کا درس دیتا ہے۔آداب گفتگو سکھاتا ہے۔ قوانین سے آگاہی فراہم کرتا ہے۔ مثبت سوچ کی تلقین کرتا ہے۔لڑائی جھگڑوں سے منع کرتا ہے۔سماجی رسم و رواج میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ہر وہ معیار جو ان کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ہمیشہ فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اذہان و قلوب میں منتقل کرتا رہتا ہے۔ اقدار روایت کا بھرم رکھنے کا سلیقہ بتاتا ہے۔اچھے پیشے کی تلقین کرتا ہے۔اپنے سے بہتر مقام چننے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔نیز زندگی کے ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ان ساری قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے اولاد پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں کہ وہ ان کی فرمانبرداری کریں۔کہا مانیں۔ لفظ انکار کو دفن کر دیں۔جی کا پہاڑا ازبر کر لیں۔ طعنوں سے گریز کریں۔ زبان تراشی کو لگام ڈالیں ۔بڑھاپے میں ان کی ضروریات زندگی کا ہر قدم پہ خیال رکھیں۔اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھنے دیں۔زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات  سے استفادہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت سمجھ کر خدمت کریں۔ بلا وجہ تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ان کا ہاتھ تھام کر رکھیں۔ٹھوکروں اور دربدری سے بچائیں۔ اولڈ ہوم کا تصور دور دور تک نہ آنے دیں۔کیونکہ انہوں نے بھی تمہیں ایک چھت تلے پالا ہوتا ہے۔اپنے گھر سے کبھی جدا نہیں کیا۔ آنکھ کا تارا بنا کر رکھا ہوتا ہے۔ موسموں کی شدت سے بچا کر رکھا ہوتا ہے۔ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی بدولت ان کے چہروں پر ندامت کی سلوٹیں پڑ جائیں۔بلکہ زندگی میں وہ کام کریں جن سے ان کی عزت و توقیر  میں اضافہ ہو۔ سر فخر سے بلند ہو جائے۔زندگی کہ ہر قدم پہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔جھوٹ سے گریز کریں۔اونچی آواز میں مت بولیں۔ گالیاں نہ بکیں۔اپنے کردار سے ثابت کریں۔تہذیب و تمدن کو سامنے رکھیں۔بے جا خواہشات کا گلا گھونٹ دیں تاکہ باپ مقروض ہونے سے بچ جائے۔ کوئی بھی کام باہمی صلاح مشورہ سے کریں۔ انہیں گھر کا مختار جان کر پیچھے چلیں۔ اچھے اور لائق  بنیں۔ شیخی نہ ماریں۔کسی بات پر فخر نہ کریں کیونکہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ ہمیشہ جرات و بہادری کا مظاہرہ کریں۔ہر رشتے کا تقدس بحال رکھیں۔معاشرے میں اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیں یقینا اسی سے لوگ جانیں گے کہ تم  ایک اچھے باپ کی اولاد ہے۔تربیت یافتہ ہو ۔منزہ جذبوں سے سرشار ہو۔ آنکھوں میں شرم و حیا کا سرمہ لگاتے ہو ۔لغو باتوں سے پرہیز کریں۔ مثبت خیالات کا بیج بوئیں۔ حکمت و معرفت کا پلو تھام کر رکھیں۔ عبادت کے تقاضے پورے کریں۔خدا تعالی کو اپنا پالن ہارا جانیں۔ اسی کی عبادت کریں۔کیونکہ وہ رب العالمین ہے۔اسی نے ہم کو بنایا اور ہم اسی کے لوگ ہیں۔سوشل میڈیا کی غلامی سے آزاد ہو جائیں۔ اپنے گلی محلے میں درست چال چلن رکھیں۔قومی مقام حاصل کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔منشیات کے عادی لوگوں کی اصلاح کریں۔انہیں لعنت اور جوئے سے چھڑائیں۔خوابوں کی تعبیر محنت شاقہ سے کریں۔علاج و معالجہ میں ان کی رہنمائی کریں  

باپ کے عالمی دن کے موقع پر اپنے ذہن کی پردہ سکرین پر باپ کی قربانیوں کے اعتراف کا گراف ضرور بنائیں۔اسے بار بار پڑھیں تاکہ ضمیر ملامت کرے۔دل سوچنے پر مجبور کرے۔ کاش!  یہ بات ہر نوجوان کے دل میں اتر جائے۔"جیسا کرو گے ویسا بھرو گے" کیونکہ کہاوتیں اور کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں۔ دل پسند ہوتی ہیں۔ تربیت کی سمت متعین کرتی ہیں۔ اخلاق کو وسعت بخشتی ہیں۔ آئیں اگر آج تک اپنے باپ کی عزت نہیں کی تو خدا کے سامنے اقرار کریں۔اپنی غلطیوں پر واہ ویلا کریں۔اپنے گناہوں سے توبہ کریں ۔ خدا کی فرمانبرداری کا عہد کریں۔کیونکہ وہ توڑتا نہیں بلکہ جوڑتا ہے۔اگر ہم روی زمین پر عمر درازی پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی عزت کرنا ہوگی۔ یہ واحد حکم  ہے جس کے ساتھ عمر درازی کا وعدہ ہے۔خدا کبھی جھوٹے وعدے نہیں کرتا۔اس کے سارے وعدے ہاں اور برکت کے ساتھ ہیں۔تو دیر کیے بغیر باپ کی قربانیوں کا اعتراف کر لیجئے۔اگر آپ ایک صحت مند خاندان ، گروہ، قبیلہ اور قوم بننا چاہتے ہیں۔تو عہد تجدید کا لقمہ کھا لیجئے۔شفا کا عمل خود بخود ہی شروع ہو جائے گا۔


Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم