بیواؤں کا عالمی دن - ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 23 جون کو دنیا بھر میں بیواؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یہ دن بیواؤں کو زیر کفالت افراد ، درپیش مسائل ، غربت اور ناانصافی سے نپٹنے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ وہ اس دن اپنی تمام تر مجبوریوں اور بے بسیوں کو بلائے طاق رکھ کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہیں۔کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔اگر ان کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے تو اس دن کی اہمیت قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔اگر تاریخی طور پر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سب سے پہلے "دی لومبا فاؤنڈیشن" نے 1954ء کو بیواؤں  کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم ان کی کوششوں کے بل بوتے معرض وجود میں آیا ہے۔ اس دن کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے۔یہ دن خصوصی طور پر دی لومبا فاؤنڈیشن کے بانی لارڈ لومبا کی والدہ شر یمتی پشپاوتی کی یاد میں منایا جاتا ہے کیونکہ وہ اس دن بیوہ ہو گئی تھی۔ دی لومبا فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 248 ملین بیوائیں ہیں جن میں 115 ملین بیوائیں غربت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ انہیں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مواقع میسر نہیں آتے۔وہ بیچاری در در کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہیں۔انہیں سماج می


 اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 23 جون کو دنیا بھر میں بیواؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یہ دن بیواؤں کو زیر کفالت افراد ، درپیش مسائل ، غربت اور ناانصافی سے نپٹنے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ وہ اس دن اپنی تمام تر مجبوریوں اور بے بسیوں کو بلائے طاق رکھ کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتی ہیں۔کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔اگر ان کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے تو اس دن کی اہمیت قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔اگر تاریخی طور پر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سب سے پہلے "دی لومبا فاؤنڈیشن" نے 1954ء کو بیواؤں  کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم ان کی کوششوں کے بل بوتے معرض وجود میں آیا ہے۔ اس دن کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے۔یہ دن خصوصی طور پر دی لومبا فاؤنڈیشن کے بانی لارڈ لومبا کی والدہ شر یمتی پشپاوتی کی یاد میں منایا جاتا ہے کیونکہ وہ اس دن بیوہ ہو گئی تھی۔ دی لومبا فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 248 ملین بیوائیں ہیں جن میں 115 ملین بیوائیں غربت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ انہیں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مواقع میسر نہیں آتے۔وہ بیچاری در در کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہیں۔انہیں سماج میں مختلف پریشانیوں اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو وہ سماجی بدنامی اور معاشی محرومیوں کا شکار ہیں۔کیونکہ وہ اپنے شوہروں کو کھو چکی ہیں۔اسی غرض و غائیت سے دی لومبا فاؤنڈیشن نے 2010 میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون کو اس دن کو منانے کا منشور پیش کیا تھا۔جسے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر  باقاعدہ طور پر منظور کر لیا گیا۔لیکن اس دن کو باقاعدہ منانے کا آغاز 23 جون 2011 کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کیا گیا۔2010 میں ہی دنیا کے کئی  ممالک نے بیواؤں کا عالمی دن منایا۔ان ممالک میں امریکہ ، برطانیہ ، سری لنکا ، نیپال ، شام ، کینیا ، بھارت ، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ان تمام ممالک نے بیواؤں کی بحالی غربت اور سماجی انصاف سے نپٹنے کے لیے اپنے اپنے ممالک میں تحریک کو فروغ دیا۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے اس دن کو باقاعدہ منانے کا آغاز کیوں کیا گیا؟ آخر اس تلخ حقیقت کے پیچھے کون سے محرکات شامل ہیں جنہوں نے معاشرے کی زبوں حالی پر باقاعدہ طور پر تحریک کو شروع کیا۔وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشروں نے بیواؤں کو یکساں طور پر نظر انداز کیا ہے ۔بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے انہیں مزید احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔انہیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔خاص طور پر نقل مکانی ، جائیدادوں اور قبضہ ، مار پیٹ ، طلاق ، جائیداد سے دخل اندازی وغیرہ شامل ہے۔اس وقت دنیا بھر میں پانچ ایسے ممالک ہیں جن میں بیواؤں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ان متاثرہ ممالک میں سر فہرست انڈیا ، چین ، افغانستان ، امریکہ اور یوکرین کے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ قریبا دنیا کے ہر ملک میں بیوائیں موجود ہیں۔انہیں معاشرے میں اپنے بچوں کی  کفالت ، بڑھاپے میں پینشن اور بنیادی حقوق کی ہر ممکن ضرورت ہے۔ ہم جب بھی حقوق و فرائض کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے معاشرے میں  ان بیواؤں کی بھی بات کرنی چاہیےجو بیوہ ہوتے ہی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ بیوہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ذیل میں چند وجوہات پیش خدمت ہیں۔

* بعض خواتین کے خاوند حادثات کا شکار ہو کر لقمہ اجل  ہو جاتے ہیں۔

* بعض خواتین کے خاوند بوجہ بیماری جہان فانی سے رحلت کر جاتے ہیں۔

* بس خواتین کے خاوند دوسری شادی کی بنا پر انہیں  چھوڑ جاتے ہیں۔

* بس خواتین کے خاوند گھریلو لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے۔زہر دے دیا جاتا ہے۔

* بعض خواتین کے خاوند جائیداد ہڑپ کرنے کی غرض سے جھوٹی محبت کی دھوکہ دہی کرتے ہیں۔

* بعض خواتین کے خاوند بیرون ملک جا کر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔

* بعض  خواتین کے خاوند بے راہ روی کا شکار ہو جا کر اپنی بیوی کو چپکے سے  چھوڑ دیتے ہیں۔

ہمارے ملکوں اور معاشروں میں اخلاقیات کی بہت زیادہ کمی ہے۔ یہاں  ظلم و ستم اور تشدد کی وبائیں چلتی ہیں۔احساس کمتری اور احساس برتری جیسے مسائل ہیں۔ حقیقی محبت کا فقدان ہے۔مال و زر کی ہوس ہے۔ حسن پرستی کا پرچار ہے۔ لالچ کا بے لگام گھوڑا ہے۔اشتعال پذیری ہے۔ وسوسے اور توہمات ہیں۔ اعتماد کی کمی ہے۔ رشتوں کی بے توقیری ہے۔قبضہ مافیا درندے ہیں۔خواہ مخواہ خوف وحراس پھیلانے کی عادت ہے۔ بدعتیں اور ناچاکیاں ہیں۔

یہ مذکورہ چند وہ بنیادی شر انگیز عناصر ہیں جو انسانوں کو اپنی بیویوں کو بیوہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اگر عصر حاضر میں اس بات کا فکری جائزہ لیا جائے تو حالات نہ گفتہ بے ہیں۔ معاشرہ عدم توازن کا شکار ہے۔دنیا بھر میں مختلف رجسٹرڈ تنظیمیں ہیں جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ہیں۔اسی طرح پاکستان میں اگر حکومت پاکستان اور دیگر تنظیمیں اس پچیدہ ایشو پر سفارشات مرتب کریں تو بیواؤں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔قبضہ مافیا سے ان کی جائیدادیں چھڑوائی جا سکتی ہیں۔ان کے بچوں کی کفالت کے لیے باقاعدہ پینشن شروع کی جا سکتی ہے۔انہیں گورنمنٹ اور پرائیویٹ جاب مہیا کی جا سکتی ہیں۔ صاحب استطاعت ان کی مالی معاونت کر سکتے ہیں۔انہیں احساس کمتری کے خول سے باہر نکال سکتے ہیں۔پتہ نہیں ہمارے معاشرے میں ایسی صورتحال پر قابو پانے کے لیے گورنمنٹ یا پرائیویٹ سطح پر کچھ کام ہوا ہے یا نہیں۔میں دی لومبا فاؤنڈیشن کہ جرات کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کار خیر میں پہلا قدم اٹھایا۔اقوام متحدہ کو بیواؤں کا عالمی دن منانے کے لیے منشور پیش کیا۔ میں حکومت وقت اور این جی اوز سے استدعا کرتا ہوں کہ بیواؤں کو ایسے حالات اور موسم میں چھت فراہم کی جائے۔سرکاری سطح پر انہیں گھر مہیا کیے جائیں۔بے نظیر انکم سپورٹ میں انہیں باقاعدہ شامل کیا جائے۔18 سال تک بچوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا جائے۔انہیں فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جائے۔ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے بلکہ ان کی نجی زندگی میں ان کے ساتھ  شفقت  اور محبت سے پیش آیا جائے۔ انہیں غلط کام پر مجبور نہ کیا جائے۔بلکہ انہیں  احساس  کمتری سے باہر نکالنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ 


Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی