نرسوں کا عالمی دن - ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

 


نرسوں کا عالمی دن - 
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد 

نرسوں کا عالمی دی انٹرنیشنل کونسل آف نرسز کے زیر اہتمام ہر سال 12 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو باقاعدہ منانے کا آغاز 1965 سے ہوا۔ تاحال یہ دن اسی تواتر و تسلسل اور جوش و جذبہ کے ساتھ نرسوں کی خدمات کے اعتراف میں ہر سال منایا جاتا ہے۔امسال بھی یہ دن دنیا بھر میں تمام سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر منایا جائے گا۔ پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی۔انہوں نے 1949 میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن قائم کی۔بعد ازاں 1951 میں نرسز ایسوس ایشن کا قیام  وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ مختلف ایسوسی یشن نرسنگ کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ انہیں سماجی تحفظ کی یقین دہانی کرائی جائے گی۔  2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1276 ہسپتال ، 5558 بنیادی صحت کے مراکز ، 736 رورل ہیلتھ سینٹرز ، 5802 ڈسپنسریاں ، 78 مٹر نٹی اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹر ،416 ٹی بی سینٹر اور ان گنت پرائیویٹ ہسپتال مریضوں کی فلاح و بہبود اور بیماریوں کی روک تھام میں عوام الناس کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ نرسوں کی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کی محنت ، عظمت اور رحم دلی نے مریضوں کے دلوں میں راج کر رکھا ہے۔ وہ شب و روز مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے تیار رہتی ہیں۔لہذا اسی غرض و غائیت سے نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کی حالات زندگی پر طائرانہ نظر  کہ انہوں نے نرسنگ کے میدان میں کس طرح ترقی کی۔اگر نرسنگ کے شعبہ کو دیکھا جائے تو یہ ایک مقدس پیشہ ہے۔دنیا بھر میں اس پیشہ سے زیادہ تر خواتین وابستہ ہیں۔لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف خواتین ہی نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ بلکہ اب مرد بھی اس شعبہ سے منسلک ہیں اور  خواتین کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔

 اگر اس حقیقت کو دل سے تسلیم کیا جائے تو پھر نرسنگ ایک مقدس شعبہ ہے۔انسانیت کا ترجمان ہے۔ بیمار لوگوں کا پرسان حال ہے۔دکھیوں کی فریاد گاہ ہے۔بغیر رنگ نسل اور مذہب کے ہر انسان کا دوست ہے۔     

آپ کسی بھی ہسپتال میں جا کر دیکھیں وہاں نرسیں  ڈاکٹرز کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں۔اگرچہ زمانہ قدیم سے خواتین مریضوں اور زخمیوں کی دیکھ بھال میں اہم کردار کرتی رہی ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ خواتین فطری طور پر 

 نرم دل مخلص ، محبت ، ایماندار ، اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوتی ہیں۔اس لیے وہ تعلیم چھوٹے بچوں اور طب کے شعبوں کے لئے زیادہ موزوں تصور کی جاتی ہیں۔ان کی ہمدردی اور محبت سے بہت سے مریض بغیر دعا کے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔کیونکہ ان کی گفتگو میں مٹھاس ، شرینی ، ہمدردی اور محبت کا رس شامل ہوتا ہے۔

نرسنگ کے شعبہ میں فلورنس نائیٹ انگیل کا نام خدمت سے عبارت ہے۔اس نے طب کے شعبہ میں محنت اور لگن سے دنیا میں انقلاب پیدا کیا ہے۔ وہ 12 مئی 1820 میں اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوئیں۔وہ تین ممالک میں رہائش پذیر رہیں جن میں انگلستان اٹلی اور آئرلینڈ شامل ہے۔ 

اگرچہ فلورنس نایٹ انگیل کے خاندانی پس منظر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ اور ان کے مزاج میں خاصا فرق تھا۔ کیونکہ ان کی والدہ خاصی سخت مزاج خاتون تھیں  جبکہ فلورنس کی فطرت اپنی ماں کے خلاف تھی۔وہ قدرتی طور پر خدمت کے جذبہ سے معمور تھی۔ قدرتی طور پر وہ نرسنگ کا مزاج لے کر پیدا ہوئی تھی۔اس نے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود بھی نرسنگ کا فن پوری توجہ سے سیکھا۔اسے نرسنگ سے اس قدر محبت تھی کہ اس نے اپنی ہر خواہش کو اس خدمت پر قربان کردیا۔

حتیٰ کہ شادی کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

فلورنس نائیٹ انگیل کی شہرت اس وقت زیادہ ہوئی جب اس نے جنگ کریمیا میں شرکت کی۔اسے 38  نرسوں کے ہمراہ جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے بھیجا گیا۔

اس وقت ایک بڑی تعداد موت کے منہ میں جا رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آنکھوں کے سامنے چار ہزار سپاہی لقمہ اجل بن گئے۔اس نے اپنی ساتھی نرسوں کی مدد سے بڑی جاں فشانی سے مریضوں کی دیکھ بھال شروع کی اور چھ ماہ کی قلیل مدت میں حالات پر قابو پالیا۔

اب سپاہیوں کی شرح اموات 42 فیصد سے کم ہو کر صرف دو فیصد تک رہ گئی۔

جب فلورنس نائیٹ انگیل جنگ کریمیا سے واپس آئی تو قوم نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا۔فلورنس کے لیے پچاس ہزار پاؤنڈ جمع ہو چکا تھا۔فلورنس نے اس فنڈ سے لندن کے سینٹ پال ہسپتال  میں نرسوں کی تربیت گاہ قائم کی۔جہاں سے نرسوں کا پہلا تربیت یافتہ گروپ 1865 میں فارغ التحصیل ہوا۔فلورنس کو اپنے ماں باپ کی طرح سے وراثت میں اتنا کچھ ملا کہ وہ گھر بیٹھے پر سکون زندگی بسر کر سکتی تھی۔لیکن انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے زندگی وقف کر دی۔اور پیشے کو باوقار اور زیادہ مفید بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔اس سلسلے میں ان کی دو کتب ہسپتال کے لئے یاداشتیں اور نرسنگ کے لیے یاداشتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔فلورنس نایٹ انگیل کی خدمات کا اعتراف دنیا بھرمیں کیا گیا۔1883 ء میں ملکہ وکٹوریہ نے انہیں عالمی رائل ریڈ کراس ایوارڈ دیا۔

آخر کار وہ 1910 میں 90 برس کی عمر پاکر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔

فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ نرسوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کریں۔تمام ہسپتال اور ادارے 12 مئی کو انہیں بہترین کارکردگی پر  ایوارڈز ، میڈل اور سرٹیفکیٹس سے نوازیں۔ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔کیونکہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو میری دیکھ بھال میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔  

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی