”عرفان جاوید کے 6 نادر آدمی“ (ایازمورس)


”اگر آپ اردو ادب میں بطور قاری جوان رہنا چاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ آپ کو عرفان جاوید کا ”عرفان“حاصل ہوجائے!مجھے یقین ہے کہ آپ کو اردو، ادب اور مطالعہ کا جاوید بھی حاصل ہو جائے گا“۔ میں یہ بات بڑے وثق اور اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔میں جناب عرفان جاوید سے گزشتہ 5 سالوں سے ذاتی ملاقاتوں،گفتگو اور اُن کی پانچ کتابوں،”دروازے،کافی ہاؤس، سُرخاب،عجائب خانہ اور آدمی“ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر آپ کا اُردو ادب میں مطالعہ محدود ہے اور آپ اس میں دلچسپی لیتے ہیں تو آپ کو صرف عرفان جاوید کی تحریریں پڑھنے کی ضرورت ہے۔ عرفان جاوید کی تحریروں میں اگر جادو اور اثر نہ ہوتا تو اتنے طویل اور مشکل موضوع بہت کم لوگ پڑھتے، یہ ہی عرفان جاوید کا فن اور مہارت ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو اتنا دلچسپ اور آسان فہم بنا دیتے ہیں کہ تحریر کو مکمل پڑھے بغیر نہ سکون ملتا ہے اور نہ رُوح کو تشنگی حاصل ہوتی ہے۔اُن کی تحریر ختم کرکے ایک اطمینان تو میسر ہوتا ہے لیکن سوچ کا نیا زوایہ شروع ہو جاتا ہے بلکہ اسی طرح جس طرح اچھی تحریرپڑھنے کے بعد سوچ کا نیا جہاں شروع ہو جاتا ہے۔اچھی تحریر کو پڑھنے کے بعد سوچنے کا عمل شروع نہ ہو تو وہ تحریر دیر تک زندہ نہیں رہتی ہے۔عرفان جاوید کی تحریروں میں یہ اثر اورکشش موجود ہے۔عرفان جاوید کی تحریروں میں یہ قوت اور مقناطیسیتپائی جاتی ہے جو آپ کو بار بار پڑھنے اور پڑھنے کے بعد سوچنے کی تحریک دیتی ہے۔حال ہی میں اُن کی نئی کتاب ”آدمی“شائع ہو ئی ہے۔ 

254صفحات پر مشتمل یہ کتاب، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور نے شائع کی ہے۔گزشتہ کتابوں کی نسبت اس کتاب میں کاغذ کا معیار اور الفاظ کا فونٹ بھی زیادہ بہتر ہے۔خوبصورت کور اور دیدزیب ٹائٹل پہلی نظر میں ہی قاری کو اپنی جانب توجہ مبذول کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کتاب میں اُنہوں نے 6زندگی بردوش،عجوبہ روزگار،نادرہ کار لوگوں کی داستانیں،فکر آفریں اور زندگی آموز خاکے لکھے ہیں۔جس میں 1:نیا،پُرانا آدمی:آصف فرخی،2:من موجی:اسحاق نور۔ناول کا ایک گم شدہ کردار،3:گیبرئل،4:خواب دیکھنے،دِکھانے والا،مطیع الرحمان کی کئی زندگیاں،5:بڈَی ماموں،6:بانسری بابا، شامل ہیں۔

خاکہ نگاری کا فن عرفان جاوید کا اصل خاصہ ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے کہ عرفان جاویداپنی عملی زندگی میں اپنے ادبی قد کاٹھ اور تحریروں سے کئی بڑے انسان ہیں۔ وہ بطور انسان قدرت کا ایک شاندار شاہکار ہیں۔بے انتہا عاجز اور نفیس ادیب اور بلا کے تہذیب یافتہ انسان ہیں۔ میں جتنے لوگوں سے ملااور اُن کے بارے میں بات ہوئی سب نے اسی طرح کے خیالات کا اظہارکیا۔مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی ذاتی شخصیت سے ہٹ کر اُن کے ادبی کام پر بات کی جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اُن کی شخصیت کے نمایاں پہلو ؤں پر بات کرنی چاہئے۔سینئر ادیبوں کو عزت دینا اور جونیئر کی حوصلہ افزائی کرنااُن کا کمال ہے۔میری اپنی تحریروں میں اُن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا بہت اہم عمل دخل ہے۔ 

ذرا یہ دیکھیں،شنشہاہ اُردو شکیل عادل زادہ اُ ن کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔”عرفان جاوید کا شمار اُن سخن وروں میں نہیں ہوتا جن کا روزنیہ،روزوشب کا وظیفہ انشا پردازی ہے اور اُنھیں کسی طور پر جزوقتی قلم کار بھی نہیں کہا جا سکتا۔وہ سربہ سر،سرتا پا فکر وخیال،تحریر وتخلیق کے آدمی ہیں۔ادب ہی اُن کامعاملہ اور مسئلہ رہا ہے۔افسانہ نگاری سے اُن کے تحریری سفر کا آغاز ہوا تھا،پھر انھوں نے شخصی خاکے لکھنے شروع کیے اور یکا یک رحجانِ طبع علمی وفکری موضوعات کی طرف ہو گیا۔انھوں نے دنیا کے حیرت زامظاہر و عجائبات اور زندگی کے ایسے معاملات و مسائل پر خارکشی کی، ہمارے قلم کاروں نے جن پر بہت کم توجہ کی ہے۔“

میں نے ان کی کتاب”آدمی“ کو پڑھنے کے بعد جب اُن کو فون کرکے بتایا کہ میں نے کتاب پوری پڑھ لی ہے تو اُنہوں نے مجھے سے پوچھا کہ آپ کو ان سب میں سے زیادہ کون سا خاکہ پسند آیا ہے؟۔میں نے کہا ”نیا،پُر انا آدمی،آصف فرخی“ کیونکہ جس نفاست اور مہارت کے ساتھ آپ نے اُن کی زندگی کے اختتام کو اس خاکے کے اختتام پر بیان کیا ہے وہ کسی فلم کے شاندار اینٹی کلائمس سے کم نہیں۔اُنہوں نے بھی کہا ہاں بلکہ صیح کہا آپ،یہ خاکہ عمد ہ بھی ہے لیکن درد ناک بھی ہے۔

آپ خود دیکھیں ”وہ آصف فرخی جو محفلوں کی جان تھے،ملک بھر میں ہونے والی ادبی نشستوں کے روح ورواں تھے اور پاکستان سے باہر کسی بھی اردو ادیب سے زیادہ جانے جاتے تھے،جب رخصت ہوئے تو اتنے تنہا اور اکیلے تھے کہ تنہائی کے اس تصور سے بھی ہول آتا ہے۔

وہ جو نیویارک کی رنگینیوں اور دل آرائیوں،لندن کی محفلوں،پیرس کے عجائب گھروں کے مہبوت کر دینے والے فن پاروں،دِلی کے چاندنی چوک کی رونقوں کے پروردہ تھے،جب کراچی کے نواحی علاقے سہراب گوٹھ میں واقع ایک سرد خانے میں دراز تھے تو جانے کیا سوچتے ہوں گے اور قدرت سے جانے کیا کلام کرتے ہوں گے۔“(صفحہ 45:)

اور دوسرامن موجی،اسحاق نور، ناول کا ایک گم شدہ کردار،یہ ہمارے معاشرے کی نمایاں تصویر ہے۔جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ”اسحاق نورایک ایسا لازوال کردار تھا جس کی تلاش اور انتظار میں کئی نامراد ناول نگار قبروں میں اُتر جاتے ہیں۔“(صفحہ48:)

ہمارے ادیب اور مشاہیر کس قدر کرب ناک اذیت سے گزر کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں یہ ایک الگ تھیسس ہے۔

عرفان جاوید نے پوچھا کہ آپ کو ”بانسری بابا“کیسا لگا؟،میں نے کہا وہ تو مٹی کی خوشبو اور دھرتی سے جڑے ایک انسان کی کہانی ہے جو اپنی مختصر سی دُنیا کا خود ہی ہیرو ہوتا ہے،جس کو اپنے ارگرد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اُن کے ساتھ آپ کا تعلق انسانیت کی ایک عمدہ مثال ہے۔جس کی ایک جھلک بانسری بابا کی وفات پر آپ کا ردعمل ہے۔”رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹا تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے،نہ جانے اتنے آنسو لگاتار کہاں سے آرہے تھے کہ مسلسل بہے جاتے تھے۔آنکھیں پونچھتا تو پھر سے بھر آتیں۔مجھے حیرت تھی کہ جب مجھے اتنا دُکھ نہیں تھا تو آنسو کیوں رُک نہیں رہے تھے۔“(صفحہ 253:)ان تحریروں کی بدولت عرفان جاوید کا نام اُردو ادب میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔عرفان جاوید کی تحریروں کو کیوں پڑھنا چاہئے اس سوال کا جواب آپ کواُن کا مطالعہ کرکے ہی معلوم ہو گا،ہاں اگر اُردو ادب میں اب تک آپ نے عرفان جاوید کو نہیں پڑھا تو آپ بہت کچھ سے محروم رہے ہیں۔میں کتاب پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہا ہوں بلکہ آپ کو اس کتاب سے متعارف کروا رہا ہوں،مجھے مکمل یقین اور بھروسہ ہے کہ آپ عرفان جاوید کی کتاب ”آدمی“ میں آدمی کی اک نئی دُنیا کو دیکھیں گے، بس دیکھیں نئی نظر سے۔

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم