”موہنی داس: ایک پُر اثر آواز“ - تحریر ایاز مورس

”موہنی داس:  ایک پُر اثر آواز“ - تحریر ایاز مورس

  ایازمورس (ayazmorris@gmail.com)

اپنی  آواز کا جادو جگانے والی ایک بہترین براڈکاسٹر کی کہانی 


تخلیق اور تحریر کے سفر میں ایسے ایسے نایاب ہیروں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جس کیلئے شاید ایک زندگی کافی نہیں ہے۔ان لوگوں میں کچھ نے اپنی آواز،کچھ نے اپنی تحریر،کچھ نے اپنے اخلاص،کچھ نے اپنے کردار اور کچھ نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ایسی ہی ایک مدھر،سریلی،اثر کرنے اور اپنے سامعین کی سماعت کے ذریعے دل میں اتر جانے والی،پاکستانی کی آواز،ریویڈکی شان اور براڈکاسٹ کی دُنیا کی پہچان موہنی داس کی زندگی کے بارے میں بات کریں گے۔

پاکستان کی پہلی خاتون ریڈیو براڈکاسٹر موہنی داس 1922 کو ایک مسیحی گھرانے میں بٹالہ، انڈیا میں پیدا ہوئیں۔ 1938 میں، موہنی داس نے آل انڈیا ریڈیو (AIR) میں بطور ڈرامائی فنکار شمولیت اختیار کی۔ جب AIR لاہور نے بچوں کا ریڈیو پروگرام شروع کیا تو انہیں ”آپا شمیم“کا نام دیا گیا۔وہ تقریباً 39 سال تک بچوں کا پروگرام کرتی رہی، آپا شمیم کا نام برصغیر پاک و ہند میں ایک گھریلو نام بنا۔جب پاکستان کا قیام ہوا تو موہنی داس نے پاکستان کا انتخاب کیا اور اسے اپنا مستقل گھر بنایا۔ موہنی داس پاکستان کی پہلی خاتون براڈکاسٹر بن گئیں۔ 1954 میں ان کی شادی حمید احمد جو کہ جنگ اخبار میں ایڈیٹر تھے سے ہوئی اور وہ موہنی حمید بن گئیں۔حمید احمد ایک وسیع سوچ کے مالک انسان تھے جو موہنی داس کے فن سے آشنا تھے۔اُن کے بیٹے ایزی حمید نے بتایا کہ اُن کے والد بہت اوپن مائنڈ انسان تھے جنہوں نے میری ماں کے مسیحی ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مذاہب اور عقائد کا احترام کیا۔

 اپنے پورے کیرئیر کے دوران انہیں پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف فنکارانہ اور ثقافتی تنظیموں کی جانب سے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 1957 میں انہیں سال کی بہترین آواز قرار دیا گیا۔ 1963 میں ریڈیو پاکستان لاہور نے ان کی سلور جوبلی منائی اور اس موقع پر بی بی سی (برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن) نے اپنی اردو نشریات میں انہیں ”گولڈن وائس آف ایشیا“ قرار دیا۔1965 میں، موہنی حمید کو صدر پاکستان نے قوم کی جانب سے ”تمغہ امتیاز“ سے نوازا۔ 1969 میں، اقوام متحدہ نے سال کو خواتین کے لیے سال قرار دیا اور اوٹووا، کینیڈا میں ایشیا کی دیگر معزز خواتین کے ساتھ ان کی تصویر اور تحریر کی نمائش کی۔1977 میں، موہنی حمیدریٹائر ہو گئیں اور مسیحی مشنری کاموں میں شامل ہونے کے لیے پاکستان سے امریکہ چلی گئیں جو ان کی زندگی بھر کی خواہش تھی۔ انہوں نے ”Key کمیونیکیشنز“ میں شمولیت اختیار کی، جو جنوبی ایشیا میں مسیحی بشارتی اور ابلاغی سرگرمیاں سرانجام دے رہی تھی۔ انہوں نے پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں ریڈیو نشریات کے لیے اردو زبان میں بائبل مقدس (نئے عہدنامے)کی مکمل ریکارڈنگ کی۔ اپنی بینائی ختم ہونے کے باوجود اُنہوں نے یہ پروجیکٹ مکمل کیا۔

 ان کی ملک سے غیر موجودگی میں بھی1998 میں، پاکستان کی حکومت نے ایک بار پھر موہنی حمید کو دوسری بار”تمغہ امتیاز“ سے نوازا، 1999 میں انہیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے لیے انہیں دُنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے۔ اس اعزاز کے بعد وائس آف امریکہ نے ان کے فن اور زندگی سے متعلق ان کا انٹرویو اردو بین الاقوامی نشریات کے لیے نشر کیا۔16 مئی 2009 موہنی حمید کا امریکہ میں انتقال ہو گیا۔ 2013 میں، پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے ان کے اعزاز میں لاہور ”موہنی حمید اسٹوڈیو“ وقف کیا۔

Vintage Pakistan کے مطابق ”ان کی آواز سامعین میں اتنی پسند کی جاتی تھی کہ امتیاز علی تاج، رفیع پیر، عابد علی عابد، شوکت تھانوی اور دیگر مصنّفین ان کی آواز کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار تخلیق کرتے تھے۔ رفیع پیر کے مشہور ڈرامے اکھیاں میں اندھی لڑکی کا کردار بھی موہنی حمید نے ادا کیا تھا۔موہنی حمید کا تعلق صداکاروں کی اس نسل سے تھا جس میں مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، عزیز الرحمن، نسرین محمود، خالدہ ارجمند، عبداللطیف مسافر، مرزا سلطان بیگ عرف نظام دین اور محمد حسین جیسے فنکار شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب امتیاز علی تاج، رفیع پیراور شوکت تھانوی جیسے ڈرامہ نگار بھی ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں اپنی آواز کا جادوجگاتے تھے۔“

موہنی حمید اور ستنم محمود کو یاد کرتے ہوئے ڈان نیوز میں اپنے آرٹیکل ”پاکستان کی بہترین ریڈیو خواتین“ میں ماجد شیخ لکھتے ہیں۔چونکہ 24 گھنٹے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فون نے ہماری زندگیوں پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن ان حیرت انگیز لوگوں کو بھولنا آسا ن نہیں ہے جنہوں  نے پاکستان میں اس مواصلاتی انقلاب کا آغاز کیا، یہ ریڈیو والے لوگ تھے۔دسمبر 1937 میں لاہور میں ریڈیو کا آنا ایک ایسا لمحہ تھا جو اپنے ساتھ ایسے نام لے کر آیا جو جلد ہی گھریلو نام بن گئے۔ پطرس بخاری جیسے لینجڈ، جنہیں مقامی طور پر ”بڑے بخاری صاحب“ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے لہروں پر حکمرانی کی اور ان کے ساتھ ایسے بے شمار لوگوں نے کام کیا جن کی فونک اورپرو ڈکشن کی مہارتوں کو اس نے ٹھیک بنایا۔ ان کی آواز افسانوی ہو گئی۔جیسے جیسے لاہور میں ریڈیو کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔وہ واحد ذریعہ جس کے ذریعے سامعین کو فوری طور پر پیغام پہنچایا جا سکتا تھا، دو خواتین اپنی شاندار صلاحیتوں کے لیے نمایاں ہیں۔ وہ موہنی حمید اور ستنم محمود تھیں۔ یہ دو شاندار آوازیں عام سے کہیں زیادہ عمدہ تھیں۔ اس حصے میں ہم ان دو شاندار براڈکاسٹروں اور اپنے وقت کے لیجنڈز پر بات کریں گے۔”گولڈن وائس موہنی“آئیے پہلے موہنی داس کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جنہیں موہنی حمید کہا جانے لگا۔ سامعین کے لیے، زیادہ تر اس عمر کے بچوں کے لیے، وہ بے مثال ”شمیم آپا“ تھیں۔ لاہور میں ٹی وی سے پہلے کے دور کے بچے، اور ملک بھر کے دیہاتوں میں جہاں بجلی موجود تھی، شام کو کھانے کے بعد اپنے بڑے بڑے ریڈیو سیٹوں کے گرد بیٹھ کر شمیم آپا کو ہر رات اردو میں ایک نئی کہانی سناتے سنتے تھے۔ اس کی آواز کی سنسنی، توقف، خاموشی، وہ جانتی تھی کہ کس طرح لاکھوں لوگوں کو اپنی کہانی سے چپکانا ہے۔ 39 سال تک پاکستان اور ہندوستان میں سامعین نے ان کی آواز سنی۔”اگر موہنی اردو کے موتی سلائی کر سکتی ہے تو یقیناً مجھ سے پنجابی میں گلاب کے ہار پیدا کرنے کی توقع تھی،“ ستنم محمودنے ایک بار طنز کیا۔“

اُن کی وفات پر بی بی سی اُردو نے یوں خبر شائع کی۔”براڈ کاسٹر موہنی حمید چل بسیں۔ریڈیو پاکستان کی سابق براڈ کاسٹر، بچّوں کی آپا شمیم، بہت سے معروف ریڈیو ڈراموں کی ہیروئین اور بچوں کے کئی مشہور گیتوں کی گلوکارہ، موہنی حمید کا امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں انتقال ہوگیا ہے۔ یہ افسوس ناک خبر اُن کی بیٹی کنول نصیر کے ذریعے میڈیا کو 18 مئی کی شب موصول ہوئی۔مرحومہ نے موہنی داس کے نام سے نوجوانی میں ریڈیو پر کام شروع کیا تھا اور پینتیس برس تک ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کے ہفتہ وار پروگرام میں آپا شمیم کا کردار نبھانے کے علاوہ انہوں نے برسوں تک ہر شام بچوں کو کہانی بھی سنائی۔امتیاز علی تاج کے معروف کھیل ستارہ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی موہنی حمید کئی سال سے امریکہ میں مقیم تھیں۔مرحومہ کے لواحقین میں اُن کے شوہر حمید احمد، بیٹی کنول نصیر اور بیٹا اذنِ حمید شامل ہیں۔مرحومہ کو اہلِ ریڈیو نے بجا طور پر بلبلِ نشریات کا خطاب دے رکھا تھا۔“

 ان کی بیٹی کنول نصیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بیشک اللہ کا دیا ہوا ان کے پاس سب کچھ تھا لیکن مجھے حکومت پاکستان سے گلا ہے کہ ان کے پاس پاکستان میں اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔اتنی بڑی فنکار، ایک صوفی منش عورت، جس نے اس ملک کو اتنی تہذیب دی، زبان درست کی، پیار دیا بچوں کو، روز کہانیاں سنائیں، آپ سوچ نہیں سکتے اتنے بچے ان کے پروگرام میں آتے تھے۔اتنا کچھ دینے کے باوجود ان کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا وہ ساری عمر لاہور میں کرایے کے گھر میں رہیں۔“ان کے بیٹے اذن حمید (ایزی)نے بتایا کہ ان کی والدہ نہایت ہی سادہ اور مذہبی خاتون تھیں، وہ اکثر اتنی سادگی کا مظاہرہ کرتی تھیں کہ کئی لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اتنی معروف اور مشہور ہونے کے باوجود سادگی کا دامن نہیں چھوڑتی تھیں۔

موہنی حمید، اداکاری کے ہنر کی ملکہ، آواز کے سحر کا جادوئی اثر رکھنے والی کوئل اور سادگی اور ایمانداری کا پیکر تھیں۔نیویارک امریکہ میں مقیم ان کی پوتی مشعل سارہ نے بتایا کہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں اپنا بچپن اپنی دادی کے ساتھ بسر کرنے کا موقع ملا۔یہ ہی وجہ کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود اردو بول لیتی ہیں یہ ان کی دادی کی تربیت اور اردو سے محبت کے انمول رشتہ کا بہترین ثبوت ہے۔

موہنی حمید نے پاکستان سے ہجرت کے بعد صرف دومرتبہ پاکستان وزٹ کیا لیکن مجھے پتہ نہیں کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے تو چلی گیں تھیں لیکن ان کادل، رُوح اور زندگی سے پاکستانی مٹی سے لگاؤ اورلوگوں سے محبت کبھی جدا ہوئی ہی نہیں تھی۔انٹرنیٹ اور میڈیا میں ان کی زندگی، فن اور خدمات پر بہت کم مواد موجود ہے جو ہمارے ادب شناس ہونے اور اپنے ہیروز کو سہرانے کی روایت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔خیر ان کے شوہرحمید احمد نے اپنی وفات سے قبل موہنی حمید کی زندگی، واقعات اور انکی خدمات پر مبنی اردو میں ایک کتاب”موہنی حمید (آپا شمیم)امریکہ میں،چند یادیں -چند باتیں“ لکھی ہے جو کسی حد ان کی شخصیت کوجاننے کا اچھا ذریعہ ہے۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے موہنی حمیدکے نام یوں کیا ”موہنی حمید کے نام جو مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔“

موہنی حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موہنی کو مائیکروفون کی ضرورت نہیں تھی بلکہ موئیکروفون ان کی آواز کا متمنی تھا۔موہنی حمید کی زندگی کا احاط،فن اور شخصیت کے بارے میں بے شمار باتیں ہیں جو نئی نسل کے برڈاکاسٹرز کیلئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ایسے فنکار جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے فن اور شخصیت سے دوسروں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔موہنی حمید ایک ایسی ہی رول ماڈل ہیں جنہوں نے اپنے شاندار کیرئیر کے دوران اپنے فن کا بہترین مظاہر ہ کیا۔ان کی فنی،تہذیبی اورپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں یہ الفاظ اور القابات بہت کم ہیں۔موہنی حمید فن کی معراج کا وہ عظیم شاہکار تھیں جنہوں نے زندگی میں بے شمار قربانیوں کی بدولت یہ مقام حاصل کیا۔موہنی حمید پاکستانیوں کیلئے ایک حقیقی اور بہترین موٹیویشن ہیں کہ اگر قدرت نے آپ کو صلاحیتیں انعام میں دی ہوں تو پھر اُنہیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے واقف کر نا قدرت کی ان نعمتوں کا بہترین شکرانہ ہے۔

موہنی حمیدکے شوہر نے اُن کیلئے کیا خوبصورت شعر لکھا ہے۔

ؑع:

داغ مُفارقت وہ ہمیں دے گئے حمید

جو عمر بھر کبھی بھی نہ ہم سے جدا ہوئے

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم