سوبھراج میٹرنٹی ہوم بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام سرکاری ہسپتال ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کے اعلیٰ حکام کا اس واقعے پر کہنا تھا کہ مسیحی نرس کو ذاتی جھگڑے کا نشانہ بنایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اصل جھگڑا ڈیوٹی روسٹر میں تبدیلی کے معاملے پر ہوا۔
اس دوران دوسری نرس نے اس پر توہینِ مذہب کا سنگین الزام عائد کیا جس کے بعد ان کے بقول اسپتال میں صورتِ حال مزید گھمبیر ہو گئی اور بات تشدد تک جا پہنچی۔
یہ بھی پڑھیں؛ساون مسیح کی سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے رہا کرنیکا حکم
سندھ میں گزشتہ چند برس کے دوران توہینِ مذہب کے کیسز میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
2017ئ میں توہینِ مذاہب کے صوبے بھر میں 40 جب کہ 2018 میں 36 کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے۔اسی طرح 2019ءمیں 62 جب کہ 2020ء میں بھی توہین مذاہب کے 50 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں؛نرما علی کے مسیحی کمیونٹی کے لیے توہین آمیز الفاظ، مسیحیوں میں غصے کی لہر
جب کہ 2019ء میں کراچی شہر میں اس نوعیت کے 11 کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
یہ میری اور پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کی زمہ داری ہے کہ وہ یہ سوال ہمارے صوبے کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کیساتھ ساتھ اقلیتی وزرا سے پوچھیں کہ ایسے کیسز کی کی روک تھام کیلئے ابھی تک کیا حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے اور ہمارے اقلیتی لیڈروں نے اس حوالہ سے اپنی حکومت کے سامنے ایسی کونسی سفارشات پیش کی ہیں جن کی بدولت محض الزام پر مبنی کیسز کو روکا جا سکے۔
ضرور پڑھیں؛توہین مذہب ندیم سیمسن کیس تین ماہ میں نپٹانے کی جج ہائی کورٹ کی ہدایت
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation