میرے خاندان میں سے اکثر لوگ شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس شعبہ سے تعلق نہیں رکھتے وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام بچوں کی تعلیم اور تربیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے ان کی نشوونما میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ میرے والد پروفیسر سلامت اختر نے اپنا کیریئر ، طالب علمی کے زمانہ سے بچوں کو ٹیویش پڑھانے سےشروع کیا- اس کے بعد لاہور کے رنگ محل اسکول میں بحیثیت ایک ٹیچر اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اس اسکول سے ان کے نمائیاں شاگردوں میں جو نام مجھے یاد ہیں، ایک محترم بشپ عرفان جمیل صاحب ہیں اور دوسرا نام پیپلزپارٹی کے بہت بڑے رہنما جہانگیر بدر ہیں۔ تعلیم سے اتنی دلچسپی تھی کہ میرے والدِ محترم نے اسکول میں ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ غریب خاندان کے بچوں کو فری ٹیویش بھی پڑھائی اور ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور ایم-اے انگلش اور ایم-اے ہسٹری کر ڈالا- خدا بھی ان کی خدمات، محنت اور وفاداری سے خوش تھا جس کے صلے میں پاکستان کے مشہور تعلیمی درسگاہ گورڈن کالج میں بحیثیت پروفیسر اپنی خدمات سر انجام دینے کا موقع مِلا۔ جب کبھی اپنے والدِ محترم کے ساتھ نشِست ہوتی ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بہت سے شاگرد آج جنرل، کرنل،انجنیئر، ڈاکٹر، وکیل، جج اور ماہر سیاستدان ہیں۔ سیاست دانوں میں سے ایک دو نام جن کا میں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، وہ جناب شیخ رشید صاحب اور پیپلز پارٹی کے نئیر بخاری ہیں- خدا نے پروفیسر سلامت اختر کو پاکستان کے بہت سے نمایاں کالجز میں خدمت کرنے کا موقعہ دیا، اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے میری بہنوں نے بھی شعبۂ تعلیم کو اپنا پروفیشن بنایا اور آج وہ بھی راولپنڈی کے بہت اچھے اسکولوں میں اساتذہ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں- ہمارے خاندان کی طرح پاکستان کے بہت سے مسیحی گھرانے دہائیوں سے شعبۂ تعلم سے وابستہ رہ کر پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار حب الوطنی سے ادا کر رہے ہیں-
چند دن پہلے مجھے میری ایک بہن نے کال کی، بہت پریشان تھی، حال و احوال پوچھنے کے بعد اس نے مجھے دوسری جماعت کے لئے اردو کی آنے والی نصابی کتاب میں مسیحی بچے کا رنگ کالا نُمایہ کرنے اور "عیسائی" کہہ کر بلائے جانے کا بتایا، باقی باتیں دور, لیکن میں اس کتاب کے مصنفین کی سوچ سے بہت شرمندہ ہوا- اس سبق میں دو چِیزیں تھیں جن سے میرے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام مسیحیوں کو افسوس ہوا اور دل آزاری بھی ہوئی۔ کیا صرف کالا رنگ پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں کی نشانی ہے؟ کہاں گئیں پاکستان کو بنانے میں ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیاں؟ کہاں گئی پاکستان کو مضبوط کرنے میں مسیحی کمیونٹی کی قربانیاں، دنیا جانتی ہے اگر پاکستان میں تعلیم کی بات کی جائے تو سرِ فہرست مشنری ادارے آتے ہیں، لیکن دوسری جماعت کی کتاب بنانے والے مصنفین کو صرف ایک کالا رنگ ہی ہماری شناخت کے لئے نظر آیا؟ کالے رنگ کے لوگ تو ہر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو انہوں نے ایسا تاثر کیوں دینے کی کوشش کی کہ کالے رنگ کے لوگ صرف مسیحی ہوتے ہیں- یہ ایک غلطی تھی یا ان کی سازش! خدا جانے- مصنفین نے اتنا بھی نہیں سوچا کے ایک مسلم بچے کے ذہن میں کیا بات جا رہی ہیں اور یہ سبق پڑھتے وقت ایک مسیحی بچہ کیسا محسوس کرے گا اور ایک مسیحی ٹیچر کے دل پر کیا گزرے گی؟
دوسری اہم بات سپریم کورٹ پاکستان فیصلہ دے چکی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مسیح لوگوں کو مسیحی لکھا اور پکارا جائے لیکن لگتا ہے یہ کتاب لکھنے والے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بالکل ناواقف تھے۔ میں ان مصنفین سے کہنا چاہتا ہوں آ پ اپنی کتاب میں جوزف کا رنگ صاف دکھا کر، اس کے ہاتھ میں حلوے کی جگہ کرسمس کا کیک بھی دے سکتے تھے اور کیک اور کرسمس کو بنیاد بنا کر مسلم بچے کو مسیحی بچے سے پیار محبت کا درس دے سکتے تھے لیکن افسوس آپ کی سوچ حلوے اور کالے رنگ تک ہی محدود رہی...
کاش آپ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ کو ہی بنیاد بنا کر بچوں کو ایک اچھا سبق دے سکتے۔
ہو سکتا ہے مصنفین کی نیت اچھی ہو اور وہ برابری کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہوں لیکن غلطی مصنفین سے زیادہ ان اداروں کی ہے جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ شائد اُسی وقت سے اُن کے ذہن میں یہ منفی سوچ بیٹھ چکی ہے۔ لیکن اب ہمیں چاہئے کہ ہم ایک ساتھ مل کر معاشرے کی بہتری کیلئے ایسی منفی سوچ کا خاتمہ کریں۔ میرے خیال میں اس طرح کے نصاب سے معاشرے میں مثبت نہیں بلکہ صرف منفی نتائج حاصل ہونگے۔ اس لئے میری پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ سے گزارش ہے کہ اس کتاب کے بنانے والے بورڈ میں کچھ میسحی ٹیچرز یا پروفیسرز کو لیں اور ایسا درس لے کر آئیں جس سے دوسری جماعت کے بچوں کو ہم پیار محبت اور ہم آھنگی کا ایک اتنا اچھا پیغام دیں جس کو وہ ساری عمر یاد رکھیں۔ اصل معنوں میں یہ ہی شُروعات ہو گی نئے پاکستان کی، نفرت سے پاک اور محبت سے بھرے ہوئے لوگوں کے پاکستان کی، قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی۔
پاکستان زندہ باد
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation