تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تنظیموں نے معاشرے کی زبوں حالی کی نبض دیکھ کر انسانیت کے درد کو محسوس کیا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بات مشرق کی ہو یا مغرب کی۔سبھی انسانوں کے اندر ایک جیسا جسم ، اعضاء اور اخلاقی اقدار موجود ہیں۔اگرچہ ہمارے نظریات اور عقائد تو فرق فرق ہو سکتے ہیں۔ لیکن انسانیت کا ایک ہی پہاڑا ہے ہر براعظم کے اندر پڑھا جاتا ہے۔اسے لکھا پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ہمارے تعلقات و روابط بھی اسی بنیاد پر اقوام عالم کے ساتھ فروغ پاتے ہیں۔دوستیاں اور محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ایکسپورٹ اور امپورٹ کی تجارت ہوتی ہے۔ عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ملکوں کے ساتھ معاہدے کیے جاتے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے انڈسٹریز لگائی جاتی ہےتاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو۔
یہ بات مبالغہ آرائی سے مبرا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود مشنری لوگوں کا اولین مقصد رہا ہے۔ انہوں نے بغیر رنگ ،نسل اور مذہب کے انسانیت کی خدمت کی ہے۔اقوام متحدہ کے تحت بین الاقوامی دنوں کا منایا جانا دنیا بھر کے لیے نعمت خداوندی ہے۔ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے اس کار خیر کو پیشہ ورانہ ضرورت سمجھ کر دنیا میں عام کیا ہے۔لہذا ایسی تنظیموں اور تحریکوں کے بانیوں کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ ان کی ہمتوں اور محنتوں کو قبول کرنا چاہیے۔ انہیں سنہرے حروف سے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ان کے مشن کو جاری رکھنا چاہیے۔ یونائٹڈ نیشن آرگنائزیشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جس جرات اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔وہ دنیا کی تاریخ میں کسی جنگ کو فتح کرنے سے کم نہیں۔عالمی دنوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یونائٹڈ نیشن آرگنائزیشن کا کردار قابل ستائش ہے۔بات مزدور کی ہو ، صحت کے میدان کی ہو ، پانی کی کمی کے بارے میں ہو ، بیماریوں کے متعلق ہو ، زرعی اجناس کے بارے میں ہو ، جنگلات کے بارے میں ہو ، غربت کے بارے میں ہو ، صحت بخش اقتدار کے بارے میں ہو ، امن اور بحالی کے بارے میں ہو یا صحافت کہ ضابطہ اخلاق کے متعلق ہو۔انہوں نے ہمیشہ بغیر رنگ، نسل اور مذہب کے انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے پیشرفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔صحافت کو دنیا بھر کے ممالک میں چوتھے ستون کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس کی اہمیت گلی، محلے دیہات، شہر، گاؤں ، صوبے ، ملک اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔
آج دنیا بھر میں جتنے بھی اخبارات ، رسائل ، جرائد چھپ رہے ہیں۔ان میں صحافیوں ، دانشمندوں ، ادیبوں ، شاعروں ، شاعرات ، محققوں ، مبصروں ، مترجموں ، کالم نویسوں، مضمون نگاروں ، سائنس دانوں اور طبی ماہرین کا موثر کردار شامل ہے۔ہر خبر سے باخبر رکھنے کے لیے خواہ وہ ملکی ہو یا غیر ملکی صحافی برادری اپنی جان کو ہتھیلی پہ رکھ کر فرش شناسی میں غفلت نہیں کرتی۔خواہ انہیں مار پڑے،ان کے کیمرے توڑ دیے جائیں، مزاحمت برداشت کرنا پڑے، مقدمات کا سامنا کرنا پڑے،جیل جانا پڑے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ، وہ قلم کی حرمت اور سچ کا ساتھ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اس فرض شناسی میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان کے حرفوں ، لفظوں، جملوں ، خبروں ، کالموں ، مضمونوں اور فیچروں سے صداقت کی خوشبو سدا بہار پھول کی طرح پھیلتی رہتی ہے۔ پاکستان یوتھ لیگ والنٹیر فورم واہ کینٹ سے میری وابستگی زیادہ عرصے پر محیط نہیں ۔لیکن ان کی خدمت ، کام اور پروگرام دیکھ کر ایسے لگا جیسے برسوں کی واقفیت ہے۔اپنائیت کا موسم بڑا خوشگوار ہے۔ لہذا میرے قلب و ذہن نے مجھے آمادہ کر لیا۔ میں پاکستان یوتھ لیگ کی چیف آرگنائز میڈم عفت رؤف کا خصوصی ممنون ہوں۔جس نے مجھ جیسے کم فہم اور خاموش طبع انسان کو سنگ تراشوں کے شہر میں کھوج لگا کر ڈھونڈا اور پروگرام دیکھنے کے لیے مدعو کرلیا۔عالمی کیلنڈر کے مطابق صحافت کا عالمی دن تین مئی کو منایا جاتا ہے۔تاہم اس دن کو دو دن کی تاخیر سے پانچ مئی کو مقامی ہوٹل( پی او ایف) گیسٹ ہاؤس واہ کینٹ میں منایا گیا۔تقریب میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیات شامل تھیں۔اس تقریب کی صدارت معروف استاد و لکھاری سید ارشاد نبی نے کی۔ مہمان خصوصی میں سابق سینٹر ، دفاعی تجزیہ نگار، سابق چیئرمین (پی او ایف بورڈ ) واہ کینٹ جنرل ریٹائر عبدالقیوم ملک تھے۔مہمانان اعزاز میں کرسچن ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم ڈیوڈ ، ینگ جرنلسٹ فورم کے نائب صدر ملک عابد صدیق چوہدری ، معروف قانون دان طاہر محمود راجہ اور معروف دانشور اور جنرلزم کے استاد ، پرنسپل فیڈرل گورنمنٹ ، موٹیویشنل اسپیکر ، ٹرینر جناب ڈاکٹر جاوید مہر اسٹیج پر براجمان تھے۔ تمام معزز مہمانوں کو چیئرمین عابد حسین عابد اور جنرل سیکرٹری تمکنت رؤف امیر نے پھولوں کے گلدستے پیش کر کے خوش آمدید کہا۔ نظامت کے فرائض چیف آرگنائزر میڈم عفت رؤف نے بطریق احسن ادا کیے۔پاکستان یوتھ لیگ کی حسن کارکردگی کی رپورٹ عابد حسین نے پیش کی۔ جسے حاضرین نے سراہا۔ تقریب کا آغاز دعا اور قرات کے ساتھ قریبا چھے بجے ہوا۔ بعد ازاں تمام مہمانوں کا مختصر تعارف پیش کیا گیا۔ اظہار خیال کرنے والوں میں عابد صدیق چوہدری نے صحافت کی اقدار پر روشنی ڈالی ، ڈاکٹر جاوید مہر نے صحافت کا دلچسپ تجربہ بیان کیا۔اپنی پی ایچ ڈی کے حوالہ سے تجربات بیان کیے ، ڈاکٹر ندیم ڈیوڈ نے اخلاقیات پر زور دیا، مشتاق حسین نقوی نے صحافتی تنظیموں سے گہرے اور کھرے سوالات کیے ، نیر شہزاد بھٹی نے اصول و ضوابط پر زور دیا ، ملک زبیر نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات بیان کیے ، توفیق عمر نے عالمی صحافت پر روشنی ڈالی ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم ملک نے آزادی صحافت اور دفاع وطن کے حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات کو کھل کر بیان کیا۔صدارتی خطبہ دیتے ہوئے سید ارشاد نبی نے حق سچ کی صحافت پر زور دیا کہ ایک صحافی کو اپنے کام میں کس طرح ماہر اور فرض شناس ہونا چاہیے۔ تمام مہمانوں نے آزادی صحافت اور کھل کر بات کی۔مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔باقاعدہ ضابطہ اخلاق بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔صحافیوں کے ریفریشر کورس پر زور دیا گیا۔ جس سے بہت جلد عملی طور پر پیش کیا جائے گا۔ آخر میں پاکستان یوتھ لیگ کی طرف سے معزز مہمانوں کو شیلڈز اور صحافت کے میدان میں خدمت کے اعزاز میں صحافیوں کو تعریفی اسناد پیش کی گئیں
میں نے پاکستان یوتھ لیگ کا آنکھوں دیکھا حال جو میری آنکھوں میں شب و روز گردش کرتا تھا۔ کندھوں پہ بوجھ تھا۔صحافت کا قرضدار تھا۔اسے اپنا فرض سمجھ کر قلم کے سپرد کر دیا۔ امید واثق ہے پاکستان یوتھ لیگ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس طرح کے کئی پروگرامز مرتب کرتی رہے گی۔ اس ضمن میں دوستوں کا تعاون اور حوصلہ افزائی پاکستان یوتھ لیگ کو خدمات کے کئی عظیم مواقع فراہم کرے گی۔ میری دلی دعا ، محبت اور تعاون تنظیم سے وابستہ رہے گا۔ میں کامیاب پروگرام مرتب کرنے پر چیئرمین عابد حسین ،جنرل سیکرٹری تمکنت رؤف اور چیف آرگنائزر محترم عفت رؤف صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔علامہ اقبال کہ اس شعر سے اجازت چاہوں گا۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)
إرسال تعليق
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation