شراکت داروں کابچیوں کے جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے قانون سازی کا مطالبہ


اسلام آباد: قومی کمیشن برائے حقوق اطفال اور ادارے برائے سماجی انصاف نے اعلیٰ سطح کی مشاورتی اجلاس بعنوان" جبری تبدیلی مذہب اور کم سنی کی شادی "منعقد کیا جس میں سرکاری  اور سول سوسائٹی کے اہم شراکت داروں نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت چئیر پرسن این سی آر سی عائشہ رضا فاروق نے کی، ان کے ساتھ پیٹر جیکب ایگزیگٹیو ڈائریکٹر سی ایس جے، اللہ د  نِو خواجہ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، زیب جعفر ایم این اے، سینٹر صبا صادق، سابق سینٹر فرحت اللہ بابر اور ایڈووکیٹ لنڈسے ہائی نے اظہار خیال کیا۔


عائشہ رضا فاروق، چیئرپرسن این سی آر سی نے اس موقع پر کہا کہ '' جبری نکاح اور تبدیلی مذہب ہمارے معاشرے کے اہم مسائل ہیں،جن سے خصوصاً مذہبی اقلیت کی کم سن بچیاں زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ حالیہ قانونی ڈھانچے  میں قانونی تحفظ تو ہے، مگر قوانین پر عملدرآمد کافقدان انہیں غیر موثر بنا دیتا جس کی مثال خلاف ورزیوں کا تسلسل ہے۔ سماجی دباؤ، قوانین کا  غیرموثر عملدرآمد ، اور حقوق سے ناکافی آگاہی ان ناانصافیوں میں معاون عوامل ہیں۔" انہیں نے مزید کہا " مشاورت مذکورہ بالا مسائل ، دشواریوں پر قابو پانے اور پاکستان بھر میں بچوں کے تحفظ کے اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات مرتب کرکے ، ان کی روشنی میں  قانونی تحفظ  جس میں موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات  اور  نئی قانون سازی  تجویز کرنا ہے۔اس ضمن میں شرکاء کا تجربہ اور بصیرت ہماری آئندہ قانون سازی اور پالیسیوں کی اصلاح  میں معاون ہوں گی۔'' انہوں نے تسلیم کیا کہ شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی شکایات قابل اعتبار ہیں۔



پیٹر جیکب ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف نے بیان کیا کہ کچھ حکومتوں نے  جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی روکے تھام کے لئے اقدامات کیے ہیں مگر واقعات کا تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کے محرکات موجود ہیں ۔ انہوں نے ادارہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ  اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے کی سنگینی بیان کی  کہ: "2021 سے 2023میں ، پاکستان میں اقلیتی لڑکیوں اور خواتین کے اغوا اور جبری تبدیلی کے کم از کم 338 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جس سے نا صرف متاثرین  افراد کی زندگیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اقلیتی برادریوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے ۔لہٰذا حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کو مضبوط قانونی اقدامات کے ذریعے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔


اللہ دنِو خواجہ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ   بچیوں کی شادی کے لئے کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیےاور "شادی کی قانونی عمر میں اضافے کی مخالفت کا کوئی جواز  بنتا ہی نہیں۔ لہٰذا 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی ہونی ہی نہیں  چاہیے، چاہے وہ رضامند ہی کیوں نہ ہو۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیےقانونی تحفظات کو یکساں طور پر نافذ کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ صرف اقلیتوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ تمام بچیوں ، بچوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو تمام پاکستانی بچوں کو عدم تحفظ کا شکار بناتا ہے ۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے تجویز پیش کی: " لڑکیوں کو تبدیلی مذہب  کے بعد اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے وقت اور جگہ دی جائے، خاص طور پر جہاں تبدیلی میں شادی شامل ہو۔"



سابق سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ تبدیلی مذہب کے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے: "تبدیلی مذہب  کے لیے ایک واضح قانونی طریقہ کار ہونا چاہیے، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں وہ قانونی فورم یا  عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنی تبدیلی کا جواز پیش کریں۔ مزید برآں،جبری نکاح کی روک تھام کے لیے  نکاح خواں کی سطح پر احتساب ہونا چاہیے، کیونکہ ان مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر اصلاحات کا آغاز ہونا چاہیے۔


پیربھو ستیانی ممبر سندھ این سی آر سی نے پاکستان کی عالمی معاہدات میں ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کو یونیورسل پیریڈک ریویوحالیہ سیشن میں ان کے مسائل کے حل کے لئے پانچ سفارشات موصول ہوئی ہیں ۔جن میں سے ایک جبری تبدیلی مذہب کے متاثرین کے تحفظ اور انصاف تک ان کی رسائی کو یقینی بنانے ہے۔ اس کے باوجود جبری مذہب تبدیل کرنا، مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن چکا ہے۔ 


مشاورت کے دوران وفاقی سیکرٹری اللہ دنِو خواجہ، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، ایم این اے زیب جعفر اور سینیٹر صبا صادق سمیت شرکاء کو جبری نکاح اور  تبدیلی مذہب،کی روک تھام اور قانونی تحفظات کو یقینی بنانے   کی کا وشوں پر تعریفی شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ادارہ برائے سماجی انصاف کی دستاویزی فلم 'ہم سایہ'  جس میں  پنجاب  اور سندھ کے مختلف علاقوں میں جبری نکاح اور  مذہب تبدیلی کے متاثرہ نابالغ بچیوں کی اور انکے خاندانوں کی مشکلات پر روشنی ڈالی گئی ہےکی نمائش کی گئی۔ ہم سایہ فلم عالمی فلمی مقابلہ  وینس انٹر کلچرل فلم فیسٹیول میں "انسانی حقوق پر بہترین مختصر دستاویزی فلم" کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔  


مشاورتی اجلاس کے  اختتام میں ماہرین اور شراکت داروں نے جبری نکاح اور تبدیلی مذہب سے نمٹنے کے لیے مناسب قانون سازی کامشترکہ مطالبہ کیا۔اس کے علاوہ شرکاء نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک بااختیار قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق  کے قیام یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی