4 اگست 1954 پاکستان کے قومی ترانے کی منظوری - پہلی قسط ; تحریر گلیڈس شبانہ

 

قیا م پاکستان کے وقت 1954 تک پاکستان کا کوئی قومی ترانہ موجود نہ تھا 1947 تا 1954 تک تمام مواقع اور اسکولوں میں علامہ اقبال کی دو نظمیں پڑھی جاتی تھیں، چین عرب ہمارا ہندوستان ہمارا، لب پہ اتی ہے دعا بن کے تمنا میری،یکم مارچ 1949 کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی ہدایت پر قومی ترانے سے متعلق ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا اخبارات میں شعرا کو ترانہ لکھنے اور موسیقاروں کو دھن تیار کرنے کے لیے اشتہار دیا گیا عام طور پر کسی ترانے کے بول یا شاعری پہلے لکھی جاتی ہے اس کے بعد دھن ترتیب دی جاتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے دھن تیار ہوئی اور بعد میں ترانہ لکھا گیا 9 رکنی کمیٹی برائے قومی ترانہ عبدلر ب نشتر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی پاکستان کے ممتاز موسیقار احمد علی غلام علی چھاگہ کی تیار کردہ دھن منظور کر لی گئی بہرام رستم جی نے اس دھن کو پیانو پر ریکارڈ کر ایا جسے یکم مارچ 1949 کو ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا اس کا دورانیہ 30 سیکنڈز تھا دھن کی تیاری کے بعد اس کی شاعری کا مرحلہ تھا پاکستان کے نامور شعراور کو دھن سنائی گئی اور کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے کمیٹی نے تین شعرا زیڈ اے بخاری حکیم احمد شجاع اور حفیظ جالندھری کے ترانے کا انتخاب کیا 4 اگست 1954 کو کابینہ نے حفیظ جالندھری کا تحریر کردہ ترانہ پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا قومی ترانے کی انعامی رقم 10 ہزار روپے تھی 11 گلو کاروں نے اسے گایا دورانیہ ایک منٹ 20 سیکنڈ تھا سرکاری سطح پر قومی ترانہ پہلی بار ریڈیو پاکستان پر 13 اگست 1954 کو نشر ہوا۔
(جاری ہے۔۔۔)

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی