سرگودھا مجاہد کالونی میں جلاؤ گھیراؤ ؛ تحریر گلیڈس شبانہ



25 مئی ہفتہ کی صبح سرگودھا مجاہد کالونی میں قران پاک کی بے حرمتی کے نام پر یہ دسواں واقعہ ہے جس میں لاظر نامی ایک معمر شخص اور اس کے بیٹے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ ایک سفید پوش خاندان اور کھاتے پیتے لوگ تھے ایوب گوندل نامی شخص سے ان کی لڑائی تھی اور اسی لڑائی کی آڑ میں یہ انتقامی کاروائی کی گئی اور ان پر جھوٹا الزام لگا کر انتشار پھیلایا گیا ایوب گوندل نامی شخص نے مساجد میں اعلان کروا کر ہجوم کو اکٹھا کر کے مشتعیل  کیا اور ان پر دھاوا بول دیا گیا جب تک پولیس آئی تب تک ان کی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی گھراورکارخانے کو بھی آگ لگا دی گئی تھی پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح تشویش ناک ہے پاکستانی مسیحی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور ان پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے پاکستان بھی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں پر مسیحیوں کی حالت قابل رحم ہے ذاتی رنجشوں اور حسد کی بنا پر اس قانون کا سہارا لے کر ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے جاتے ہیں۔

 پاکستان کے مسیحی توہین مذہب کے قانون اور سزا سے بخوبی واقف ہیں وہ یہ جسارت کبھی کر ہی نہیں سکتے خدا نخواستہ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اسے قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیے مسیح مذہب تو محبت اور قربانی کا سبق دیتا ہے اور پاکستان میں مسیحیوں کی خدمت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 کسی بھی مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب کی توہین کی قطعاً اجازت نہیں ہے چاہے وہ اسلام ہو مسیحیت ہو یا پھر ہندو تمام مذاہب قابل احترام ہیں مذہب اسلام تو برابری اور رواداری کا پیغام دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر برتری حاصل نہیں۔

 پاکستان میں اس طرح کے دل دہلا دینے والے واقعات پیش آتے ہیں جب تحقیق ہوتی ہے جھوٹ سامنے آجاتا ہے اور جس نے جرم کیا ہی نہیں ہوتا وہ بے گناہ ان شر پسندوں کے ہاتھوں سزا پا چکا ہوتا ہے کبھی زندہ انسانوں کو جلایا جاتا ہےاور کبھی عبادت گاہوں کو۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی ایسا جرم کرتا ہے تو کیا پاکستان اتنی کمزور ریاست ہے کہ جو قوانین پر عمل درآمد نہیں کرا سکتی اور اس کام کے لیے نام نہاد دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے تاکہ وہ قانون کو جب مرضی ہاتھ میں لے کر اپنی وحشت و دہشت کو استعمال کر کے تمام دنیا میں ثابت کر سکے کہ ہم کتنے پکے مسلمان ہیں بغیر کسی تصدیق کے مساجد میں اعلان کر دیے جاتے ہیں اور تنکا تنکا جوڑ کر بنے ہوئے گھر راکھ کا ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں تشدد کا بازار گرم ہو جاتا ہے انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ ہیں جن پر ایک غیر مسلم بوڑھی عورت کوڑا پھینکتی تھی اور وہ مسکرا کر گزر جاتے تھے اور جب وہ بیمار ہوئی تو اس کی انہوں نے تیمارداری کی اسلام تو برداشت اور محبت کا دین ہے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں پر بھی رحم کی تلقین کرتا ہے آخر پاکستان میں اور کب تک مذہب کارڈ کھیلا جائےگابےگناہوں پر ظلم ہوتا رہے گا کبھی کم عمر اور غریب لڑکیوں کو تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جاتا ہے وہ کم عمر بچی جسے ابھی خود کی سمجھ بھی نہیں ہوتی اس کے ساتھ نکاح کر لیا جاتا ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے ریاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ہر مذہب کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں مذہبی فرقہ وارانہ عدم برداشت نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو تہہ و بالا کر دیا ہے اقلیتی کمیونٹی یا ان کی عبادت گاہوں پر کسی بھی حملے کے لیے حکومتی یقین دہانیاں صرف اس حد تک ہیں کہ حکومت سے وابستہ کوئی شخصیت جائے وقوعہ کا دورہ کرے حملےکی مذمت کرے تحفظات کا وعدہ کرے۔

اب پاکستان میں اقلیتی سماجی کارکنوں اور عالمی نگرانوں کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کے پولیس اقلیتوں کو تحفظ اور قانونی مدد فراہم نہیں کر سکتی اگر ان کو تحفظ حاصل ہوتا تو آئے دن ایسے واقعات جنم نہ لیتے شر پسندوں کو سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنایا ہوتا تو اگلا قدم اٹھاتے ہوئے انہیں کوئی خوف ہوتا میاں محمد نواز شریف جب 2013 میں دوبارہ برسر اقتدارآئے تو انہوں نے 11 اگست کو اقلیتوں کے قومی دن کا آغاز کیا قومی دن کا آغاز تو ہو گیا لیکن قوم تسلیم نہیں کیا گیا ان کو کوئی شناخت اب تک نہ مل سکی، ملی بس رسوائی اور تذلیل سرگودھا کے واقعہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سوچیں کہ گھر میں گھس کر تشدد کرنا چادر اور چار دیواری کو پامال کرنا اگر ہم خود کو اس خاندان کی جگہ پر رکھیں تو کیا رونگٹے کھڑے نہیں ہو جاتے کیا مسیحی انسان نہیں کیا ان کے خون کا رنگ لال نہیں جب یہ چرچز اور بائبل جلاتے ہیں اور پاک صلیب کی بے حرمتی کرتے ہیں تو یہ اپنے ہی ملک کے مسیحیوں کو کوئی اعزاز دے رہے ہوتے ہیں کیا یہ توہین نہیں ہے پھر ان کو سزا کیوں نہیں ملتی آخر میں میں کہوں گی کہ کوئی بھی زی ہوش اور مذہب سے تعلق رکھنے والا سچا مسلمان ایسا ہرگز نہیں کر سکتا چند شر پسندوں کی وجہ سے ہمارا ملک پاکستان بدنام ہو رہا ہے  ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے شر پسند عناصر کی نشاندہی کی جائے اور ریاست کو چاہیے کہ انہیں سخت سزائیں دی جائیں اور جن مسیحی لوگوں کو نقصان پہنچا ہے ان کے نقصان کی تلافی کی جائے تاکہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی