”مذہبی اقلیتوں کی خواتین کے کام کی جگہ پر مسائل “ (ایازمورس)


پاکستان میں خواتین اور بالخصوص مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین معاشرے کی ترقی، اپنے خاندان کی دیکھ بھال اور ملک کی معاشی بہتری میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہیں، لیکن اس اہم ذمہ داری کو سرانجام دینے کےلیے انہیں کام کی جگہ پر کون کون سے سماجی، معاشرتی اور نفیساتی و ذہنی دباؤ اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟اس حوالے سے بات کریں۔

اس آرٹیکل کی تکمیل کیلئے مختلف شعبے زندگی سے تعلق رکھنے والی پیشہ ورانہ مسیحی اور ہندو خواتین کے انٹرویوز کئے گئے ہیں جنہوں نے اپنے نام اور کام کی جگہ کو ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کام کی جگہ پر خواتین کو اب بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے لیکن مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل مختلف اور زیادہ گمبھیر ہیں جن کے بارے میں عام طور بات ہی نہیں کی جاتی ہے۔

خواتین کا کہنا ہے کہ اُنہیں ملازمت کے دوران اور کام کی جگہ پر مذہبی اقلیتوں کے مردوں کی نسبت زیادہ منفی رویوں، تعصب،نفرت اور غیرمناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پراٸیوٹ سکیٹر میں جاب کرنی والی 35 سالہ مسیحی خاتون کا کہنا ہے کہ ”اُنہیں مساوی مواقع نہیں دئیے جاتے ہیں اور نہ ہی ترقی نہیں دی جاتی ہے۔ اُنہیں وہ مراعات نہیں دی جاتی ہیں جو دوسرے ملازمین کو ملتی ہیں.

اکثرانہیں کمتر کاموں کیلئے ترجیح دی جاتی ہے۔“

ایک ٹی وی چینل سے وابستہ 25 سالہ مسیحی رپورٹ نے کہا کہ ”انہیں معاشی اور انتظامی طور پر کمزور کیا جاتا ہے تاکہ اُن پر ذہنی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ملازمت کے حصول کیلئے انٹرویو میں ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں جو دوسرے اُمید واروں سے نہیں پوچھے جاتے ہیں۔ پہلے تو اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو نوکری ہی نہ دی جائے،اگر ایسا ہوبھی جائے تو تنخواہ اور دیگر سہولیات مکمل طور پر نہیں دی جاتی ہیں۔“

38 سالہ سٹاف نرس نے بتایا کہ انہیں بلاوجہ 

”انڈرپریشر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ ذہنی دباؤ اور پریشانی بر قرار رکھیں۔جس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اپنی نوکریاں برقرار رکھنے کیلئے دباؤ میں رہتی ہیں۔مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنی والی لڑکیوں کے سامنے کام کی جگہ پر انتہائی نا مناسب زبان،حرکات اور جان بوجھ کر غیر شائستہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اکثر مذہبی اتوار اور عیدیوں پر ملنے والی چھٹیاں نہیں دی جاتی ہیں۔“

کارپویٹ سیکٹر میں آفس اسسٹنٹ کی جاب کرنے والی 26 سالہ ہندو لڑکی نے بتایا”

اگر آفس کے اوقات کار میں نماز کی بریک ہوتی ہے تو ان کو اس وقت میں بھی کام دیا جاتا ہے۔ڈائیوار اور کوک سے لے کر ٹاپ مینجمنٹ ہر کوئی اپنے قریبی تعلقات قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ُتعلیم، پروفیشنل تجربے،قابلیت اور کردار کو نظر انداز مذہب کی بنیاد پر فرق رکھا جاتا ہے۔“

مریم نامی سکول ٹیچر نے بتایا کہ اُنہیں اکثر ان جملوں کا متواتر اور بڑا عام استعمال ہوتا ہے۔

”آپ تو کرسچین لگتے ہی نہیں، آپ تو اتنی اچھی ہیں، آپ اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتی ہیں؟“

آپ کو اچھی نوکری اور اچھا رشتہ بھی مل جائے گا، دُنیا اور آخرت بھی سنوار جائے گی۔“

مسیحی لڑکیوں کی فلاح وبہبود کےلٸے کام کرنے والی سماجی رکن رخسانہ نے بتایا کہ

90فیصد لڑکیاں ایسے حالات میں ہمت ہا رجاتی ہیں جن کو کوئی مناسب سپورٹ، رہنمائی اور مدد نہ ملے۔

اور وہ اس دباؤ کی وجہ سے جاب چھوڑ دیتی ہیں۔

یا ذہنی مسائل کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

یا وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر،جنسی زیادتی،ذہنی تشدداور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اکثر لڑکیوں کی اجازات کے بغیر ان کی تصاویر یں بنائی جاتی ہیں اور بعد میں ان کو بھی بھیجی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے

”ہم نے تمہاری تصویر لی ہے،تم یہ کام کررہی تھی۔“اگر ان کو اچھی پوزیشن مل جائے تو آپ کے نیچے اسٹاف قبول کرنے سے قاصر رہتا ہے اور کام نہیں کرتا اور نہ سپورٹ کرتا ہے۔وہ جان بوجھ کر آپ کے کام میں روکاٹ پیدا کرتے ہیں۔وقت پر کام نہیں کرتے ہیں۔اکثر لڑکیاں ایسے حالات میں کام چھوڑ دیتی ہیں۔ یا دوسری جگہ کام کرتی ہیں لیکن وہاں بھی ایسے ہی مسائل اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہےوہ ایک عرصے بعد ایسے حالات کو مجبوراً قبول کرکے اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔“

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بتایا کہ اُن کے لباس، نام اور مذہبی علامات و نشانات کو بنیاد بنا کر اکثر مذاق اڑایا جاتا ہے۔اکثر لڑکیاں گھر پر ایسی گفتگو اور مسائل کا ذکر بھی نہیں کرتی ہیں کیونکہ گھر والے کسی قسم کی مدو رتعاون نہیں کرتے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں

ایسی باتوں پر توجہ مت دو، صرف اپنے کام پر توجہ دو۔

وہ صورتحال کو سمجھنے کی جائے الٹا ان کو ہی ڈانٹتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں بچتا ہے۔

گھر والے معاشرتی اور خاندانی عزت اور دباؤ کا شکار ہو کر لڑکیوں کو مزید پریشان کرتے ہیں۔ 

لڑکیوں کو ہی عمومی طور مورد الزام ٹھہرانے سے گزیز کریں۔

لڑکیاں ایسے حالات سے مجبور ہو جاتی ہیں۔ 

اس ضمن میں والدین کو اپنے بچوں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ 

کم ازکم ان کے مسائل کو سننانا چاہیے۔ 

کیمونٹی کی سطح پر سپورٹ سسٹم،فوکس گروپس اور ٹاسک فورس قائم کرنی چاہئے۔

ان کی باتوں اور کردار کو جج کرنے سے پہلے مختلف حالات کا جائزہ لینا چایئے۔

لڑکیوں کے مسائل کو سننا چاہئے۔

انہی امتیازی رویوں اور ملازمت کے حصول کے یکساں مواقع نہ ہونے کی صورت میں 11 اگست 2023 کو کراچی میں ”اقلیتی حقوق مارچ“ سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی رکن پاسٹر غزالہ شفیق نے کہا کہ حکومت سے ٹھوس اقدامات کرنے کی خاطر ہم یہ مارچ کررہے ہیں تاکہ اس ضمن میں مذہبی اقلیتوں کیلئے کوئی موثر آواز اٹھائی جا سکے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً50 سے 60 جبری مذہبی تبدیلی کے کیس سامنے آتے ہیں۔جس میں خصوصی طورپر کم عمر بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انسانی حقو ق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کو قانون جرم قرار نہیں دیا گیا  اور نہ قانونی تضاضوں میں متاثرہ بچیوں کی ذہنی صحت اور مسائل کے حل کا خیا ل رکھا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم رکن ڈاکٹر صابر مائیکل کا کہنا ہے کہ آئے دن مذکورہ اقلیتی برداریوں کی بالغ خواتین اوربالخصوص کم عمربچیوں کو جبری مذہب تبدیل کر کے شادیاں کی جاری ہیں۔ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی آزاد مرضی اور رضا مندی کے ساتھ کسی بھی بالغ شخص کی مذہب کی تبدیلی اور شادی سے کوئی اختلاف اور اعتراض نہیں تاہم منظم طور پر منظم گروہ کی طرف سے جبری مذہب کی تبدیلی کاجاری رہنا، ہمارے نرذیک قابل تشویش بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جبری مذہبی تبدیلی برائے شادی کے گھناؤ نے عمل کو ریاست، قانون سازی اور حکومتی انتظامی اقدامات کے ذریعے روکنے کی پوری کوشش کرے اور اس ضمن میں مجوزہ قانون سازی کو رُوح با عمل لا کر اقلیتی برادریوں کا چھن جانے والا احساسِ تحفظ اور احساس محرومی فوری طور پر بحال کرے۔

المختصر اقلیتی برادریوں کے احساس تحفظ کے فروغ اور مساوی شہری حقوق کی فراہمی اور موثر عوامی شرکت کیلئے ضروری قانون سازی کی جائے اور دستیاب سہولیات اور اقدامات پر موثر عمل در آمد کویقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں امن اور بقائے باہمی کو فروغ مل سکے۔

پروفیسرڈاکٹر صابر مائیکل

صدر:پیس ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (پودا)

قومی کمیشن برائے امن وانصاف نے اپنی سالانہ رپورٹ 

Casted Shadows 

میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو معاشرے میں درپیش قانونی، سماجی اور معاشرتی مسائل اور رویوں کا جائزہ لیا ہے۔اس رپورٹ میں میں کام کی جگہ پر تعصب پر بڑی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

جس میں بتایا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو ہر سطح پر بالخصوص خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس ضمن میں ریاستی اداروں، سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے نمائندگان کو آگہی اور شعور دینے کے ساتھ ساتھ مناسب قانون سازی اور کام کی جگہ پر خواتین کےلیٸے بہتر سہولیات کا انتظام کرنا پڑے گا۔

کمیونٹی کی سطح پر مذہبی اور سماجی قیادت کو عوامی سطح پر کام کرنا گا، اسکولوں میں طلبہ بالخصوص لڑکیوں کو ایسے حالات نبرد آزما ہونے کےلٸے آگاہی دینا ہوگی۔

سب سے بڑھ کر والدین کو بچوں کی ایسے حالات میں ثابت قدم رہنے اور ذہنی دباؤ سے لڑنے کےلیے سپورٹ کرنا ہوگا تاکہ لڑکیوں کسی بھی دباو اور خوف کاشکار نہ ہو کر اپنے خوابوں کو جینا نہ چھوڑ دیں۔


Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی