وزیر اعظم پاکستان کم عمر اقلیتی بچیوں کی جبری شادی کے خلاف قانون سازی کا اعلان کریں۔ بیٹی بچاؤ تحریک


 فیصل آباد پریس ریلیز ریاست اقلیتوں کوتحفظ دینے، اقلیتی بچیوں کی کم عمری میں شادی کے جرم اور تبدیلی مذہب کے واقعات کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے۔

 عدلیہ انتظامی حکام ، فیصلہ ساز اداروں اور سیاسی قیادت کو مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کا نوٹس لینا چاہیے اور اس سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کرنا چاہیے۔ 


یہ بھی پڑھیں؛پاکستانی اقلیتوں کا جبری تبدیلی مذہب کے خلاف ملک و بیرون ملک بھرپور احتجاج


اسمبلی قوانین بنانے اور انتظامیہ عملدرآمد میں ناکام ہے، اس لیے جتھے سڑکوں پر عدالتیں لگار ہے ہیں، ریاست کو معتدل معاشرے کے قیام کے لیے عدم برداشت کو کم کرنے اور باہمی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیں۔

 ان خیالات کا اظبار بشپ اندریاس رحمت، نیم یعقوب گل چیز میں بیٹی بچاتریک، فادر خالد رشید عاصی، یوسف عدنان سینٹرل کوآرڈیز بیٹی بچاؤتحریک ، شاہیں آتھنی کوآرڈینیٹر بیٹی بچاؤتحریک پنجاب سیم اتنی ڈائر یکٹر پروگرام عوام پاکستان، سابق اراکین اسمبلی جوئیل عامر سہوترا، ودیگر نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 


یہ بھی پڑھیں؛آزاد کشمیر میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈے پر جبری تبدیلی مذہب و شادیوں کے خلاف اقلیتوں کا احتجاج


شرکا نے کہا انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر روایتی بیان دہرانے کی بجائے وزیراعظم پاکستان اقلیتی بچیوں کی جبری شادی اور شادی سے مشروط تبدیلی مذہب پر قانون سازی کا اعلان کریں، یہ اقدام دنیا بھرکے لیے ان کے پیغام کے ساتھ ساتھ پاکستانی اقلیتی شہریوں کے لیے تحفظ کے احساس کا بھی باعث بنے گا۔



 ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کورنگ نسل، مذہب اور زبان میں تفریق کے بغیر برابری کاحق تفویض کرتا ہے حقوق کی اس آزادی میں اس بات کی ہرگز خصیص نہیں کی گئی کہ مذہبی اقلیتیں یا خواتین دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری تصور ہوں گے۔


 یہ بھی پڑھیں؛جبری تبدیلی مذہب، وزارت مذہبی امور اور لاہور ہائیکورٹ - شکیل انجم ساون


 اقوام متحدہ کے اعلامیہ برائے انسانی حقوق کے تناظر میں تین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے کم وبیش ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ نیز مساوی شہریت اور مواقعوں کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے، جس میں ریاست پاکستان تاحال ناکا م ہے۔ 


شرکا نے حکام پر زور دیا کہ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی حقوق کا تحفظ کریں اور انسانی حقوق کے اداروں بالخصوص قومی کمیشن برائے انسانی حقوق قومی کمیشن برائے حقوق نسواں اور اقلیتوں کے قومی کمیشن کو درکار وسائل فراہم کر کے نہ صرف خودمختاری سے فیصلے اور کام کرنے کی آزادی دے بلکہ ہرطرح کی مددفراہم کر کے مضبوط بنائیں۔ 

مزید برآں شرکا نے مساوی شہریت اور مواقعوں کی فراہمی کوفروغ دینے والے قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقے ، خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کوتحفظ فراہم کرنے کا مطالب بھی کیا۔


Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم