ان دونوں فیصلوں سے اقلیتی راہنماؤں کے بیانات میں مایوسی اور بے چینی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ اقلیتوں کی طرف سے ان اقدامات کو آئین کے آرٹیکل 20 کی نفی قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن کا تسلسل تاحال جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛جبری تبدیلی مذہب، وزارت مذہبی امور اور لاہور ہائیکورٹ - شکیل انجم ساون
اسی سلسلے میں رواداری تحریک پاکستان نے 13 نومبر بروز ہفتہ دن 2 بجے اسلام آباد پریس کلب تا ڈی چوک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا ہے جس کی قیادت چیئرمین رواداری تحریک سیمسن سلامت کریں گے۔
اس احتجاجی ریلی کا عنوان ہے " جبری تبدیلی مذہب نامنظور" اور " قانون بناؤ اقلیت بچاؤ"
اس سلسلے میں چیئرمین رواداری تحریک سیمسن سلامت نے نوائے مسیحی سے خصوصی بات میں اقلیتی افراد اور تنظیموں کو اپنا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ
یہ بھی پڑھیں؛سینیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کردیا گیا
" اگر آپ کو یقین ہے کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی وقت کی ضرورت ہے تو براہ کرم 13 نومبر بروز ہفتہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ڈی چوک تک احتجاجی ریلی میں ہمارا ساتھ دیں۔
دوپہر 2 بجے یہ احتجاج پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے مجوزہ بل کو مسترد کیے جانے پر اپنی مایوسی کا اظہار کرنے اور حکومت پر زور دینے کے لیے ہے کہ وہ اقلیتوں کی چیخیں سنیں اور جبری مذہب کی شکل میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے موثر قوانین بنائے۔
یاد رہے کہ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر پیر نور الحق قادری نے اس بل کو غیر شرعی، غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جج کے سامنے پیش ہونا، 90 دن انتظار اور 18 سال عمر کی شرائط قانونی ، مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔
انہوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات ہوتے ہیں مگر انہوں نے ان کی تعداد کم البتہ بدنامی کا باعث قرار دئے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا۔
دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ نے 17 سالہ چشمان کی حوالگی کے لیے والد کی دی گئی درخواست کو خارج کردیا اور مذہب تبدیلی کے لیے 18 سال کی عمر کی بجائے ذہنی بلوغت کو پیمانہ قراردیا۔
اسی عدالت نے گزشتہ مذہب تبدیلی کے کیس میں پمی مسکان نامی بچی کو والدہ کے حوالے کردیا تھا کیونکہ اس کی عمر ابھی 18 سال نہیں تھی۔ اسی کیس کو دیکھتے ہوئے پر±امید والد نے چشمان کی حوالگی کے لیے درخواست دی تھی۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation