انہوں نے کا کہ ادقسمتی سے ہمارا نظریہ پیش کرنے کے لیے کسی غیر مسلم نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بد قسمتی ہے کہ محب وطن اقلیتوں سے متعلق اہم فیصلے اکثریت کے ہاتھ میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں؛جبری تبدیلی مذہب، وزارت مذہبی امور اور لاہور ہائیکورٹ - شکیل انجم ساون
یاد رہے وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کا مجوزہ بل وزارت انسانی حقوق کو اعتراضات لگا کر واپس بھیج دیا تھا۔
وزارت انسانی حقوق کے مجوزہ بل میں موجود 18 سال عمر کی شرط جج کے سامنے پیش ہونے اور 90 دن انتظار کو وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی طرف سے غیر شرعی اور غیر قانونی اور بنیادی آئینی حقوق کے منافی قرار دیا گیا تھا ۔ یہ بات وفاقی وزیر مذہبی امور جناب پیر نور الحق قادری نے اپنے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہی تھی۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مجوزہ بل پر وزارت مذہبی امور میں علماء کرام کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاسوں کی صدارت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے بعد مجوزہ بل متعدد اعتراضات کے ساتھ وزارت انسانی حقوق کو واپس بھیج دیا گیا قانون اپنی موجودہ کیفیت میں شریعت اسلامی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے اس کو اسلام قبول کرنے کی رکاوٹ کے لئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا ۔
یہ بھی پڑھیں؛سینیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کردیا گیا
انہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں اور اس کی روک تھام بہرحال ضروری ہے۔ ان کے خیال میںپاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کم ہیں لیکن بدنامی کا باعث ہے۔
وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کی زیر صدارت جائزہ کمیٹی میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر اہم ممبران نے شرکت کی تھی۔
اس امر پر پاکستان میں موجود اقلیتیں تشویش کا شکار ہوئیں اور اقلیتی راہنماؤں نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation