داستان مزدور ( ڈاکٹر شاہد ایم شاہد)

داستان مزدور - ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
 داستان مزدور - ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

میں ایک مزدور ہوں۔ شب و روز مصروف رہتا ہوں۔صدیوں سے میری پہچان ہے۔ امید کا دامن تھام کر کہتا ہوں کہ رہتی دنیا تک میرا نام زبان زد رہے گا۔ کیونکہ میرے پاس جرات و توانائی کے ایسے ذخائر ہیں جو  اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوئے۔ دراصل میرے ہاتھ میں جو قوت ہے وہ لوہے کو بھی پگلا دیتی ہے۔اس ضمن میں تاریخ نے مجھے زندہ رکھا ہے۔ میری گواہی دی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ہر دور میں میری گواہ بن کر رہی ہے۔ اس لیے لوگ  میرے ہاتھ میں ہر وقت قسمت کے چھالے دیکھتے ہیں۔

میرے کندھوں پر فکروں کی گٹھڑی لٹکی رہتی ہے۔میں اس فکر اور بوجھ کو اٹھا کر مشقت کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہوں۔ ذرا سوچیں۔ میں صدیوں سے اس بوجھ کو اٹھا رہا ہوں۔ 

نہ تو میں رکا ہوں اور نہ تھکا ہوں۔ نہ میں عذر کوئی پیش کرتا ہوں۔ نہ میری سرشت میں انکار کا کانٹا ہے۔ ہر وقت وفاداری کا لباس پہن کر پھرتا ہوں۔ لوگ مجھے آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔ میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ مجھے مزدوری کی پیشکش کرتے ہیں۔ میں اسے قبول کر لیتا ہوں۔کیونکہ میرا خاندان ہے۔مجھے اس کی پرورش کرنی ہے۔ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ہے۔اس لیے میں اپنی ساری مجبوریاں زبان کے نیچے دبا لیتا ہوں۔ دیکھو یہ خدا کی کیسی قدرت ہے کہ میں نسل در نسل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہوں۔ 

میری شہرت کا کیسا کمال ہے کہ میں اپنے اندر پھول کی خوشبو رکھتا ہوں۔ دنیا ہر طبقہ  اپنے نتھنوں سے میری مزدوری کی خوشبو لیتا ہے ۔میری خوش قسمتی ہے کہ لوگ مجھے ایک ہی نام سے جانتے ہیں۔ وہ مزدور ہی ہے۔اسے کسی بھی زبان میں لکھا پڑھا اور سنا جائے۔اس کے معنی و مطالب ایک ہی رہتے ہیں۔ میرا مقام معاشرتی ، ثقافتی ، تہذیبی اور سماجی طور پر مزدور  کے لبادے میں پنہاں ہے۔میری خوش قسمتی ہے کہ  تنظیموں ، تہذیبوں ، اداروں اور حکومتوں نے یکم مئی میرے نام منسوب کر دیا ہے۔ اس دن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر میری دھوم مچی ہوتی ہے۔ لوگ میری تعریفوں کے قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔دانشور میری جرات کے قصے سنا رہے ہوتے ہیں۔ بلڈنگ ٹھیکیدار میری ضرورت بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ الغرض ہر محکمہ اور اینکر مجھے یاد کر رہا ہوتا ہے۔ میری زندگی کے سفر کو مختلف دلچسپ واقعات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہوتا ہے۔اس روز میری شان و شوکت کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔جیسے میں ہی سب کچھ ہوں۔دنیا کا ہر شعبہ اور محکمہ میرے بغیر ادھورا ہے۔ اس امر کے باوجود بھی میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ یہ دن میرے لیے عزت و ہمت کا باعث ہے۔ ارے بھائی ! کم از کم لوگ مجھے یاد تو رکھتے ہیں۔ خاص طور پر میری اجرت بہادری اور کام کا چرچا تو کرتے ہیں۔ کیونکہ  جب کبھی لوگوں کو  میری ضرورت پڑتی ہے۔میں آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہوں۔ 

میرا ملنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔میں اکثر سڑکوں چوکوں ، بازاروں ، ریلوے اسٹیشنوں ، بس اسٹینڈوں ، ہوائی اڈوں ، فیکٹریوں ، کھیتوں ، اسکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں ،  گلیوں اور محلوں میں مل جاتا ہوں۔میں فرض شناسی سے پوری طرح  واقف ہوں۔کیونکہ میری فکریں اس قدر زیادہ ہیں کہ میں شب و روز کی فکر کیے بغیر دستیاب ہو جاتا ہوں۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ مزدوری پہ سمجھوتہ کر لیتا ہوں۔قدرت نے میرے اندر احساس محنت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر رکھا ہے۔ میں ہمیشہ  ہمت و توانائی کا عصا تھام کر چلتا ہوں۔ لوگ مجھے دور سے پہچان لیتے ہیں۔ لوگوں کو بتانے کے لیے مجھے کسی تعارف کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ لوگ میرے ہاتھوں میں ساز و سامان دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں۔میں  وقت کی پابندی کا عادی ہوں ۔میں صبح کی کرنوں سے پہلے بیدار ہوتا ہوں۔ رزق کی تلاش میں گھر سے باہر چلا جاتا ہوں۔ پھر سارا دن کام کاج کرتا ہوں۔ لوگوں کی باتیں بھی سنتا ہوں۔ نفرت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہوں۔ کوئی رحم دل مل جائے تو پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے مزدوری بھی دے دیتا ہے۔میں نے کچھ ذات کے اونچے  لوگ بھی دیکھے ہیں جن کا بناؤ سنگار اس قدر نفیس ہے کہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے قدرت ان پر بڑی مہربان ہے۔ لیکن جیسے ہی ان سے گفتگو شروع ہوتی ہے۔وہ اپنے عمل و کردار سے اس بات کو ثابت کر دیتے ہیں کہ ہمارے ظاہر و باطن میں فرق ہے۔ ہماری اور تمہاری حیثیت و مقام الگ الگ ہے۔ بیٹھنے کی جگہ بھی فرق ہے۔ کھانے پینے کا معیار بھی جدا ہے۔ عزت و عظمت میں  بھی آسمان و زمین جیسا فاصلہ ہے۔  تم اس فرق کو سیکنڈوں،  منٹوں،  گھنٹوں ، دنوں ، مہینوں اور سالوں میں ختم  نہیں کر سکتے ۔کیونکہ تمہیں اس مقام پر آتے آتے کئی صدیاں بیت جائیں گی۔لیکن تمہارا مقام پھر بھی ایک مزدور ہی رہے گا۔

تم سارا دن محنت کی چکی میں پستے ہو۔ تمہارے ہاتھ قسمت کے چھالوں سے بھرے ہیں۔سر پر بوجھ ہے۔کندھوں پر فکروں کا بوجھ ہے۔جسم پسینے سے شرابور ہے۔ آنکھوں میں بے بسی ہے۔ صبح  سے شام تک مصروف رہتے ہو۔تمہاری معمولی سی مزدوری ہے۔ تم روٹی کپڑا اور مکان کی غم و فکر میں ڈوبے رہتے ہو۔ تمہاری معاشی حالت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ تمہاری مجبوریاں اس قدر زیادہ ہے کہ وہ عمر بھر پوری نہیں ہو سکتیں۔ تم ہمیشہ محرومیوں کا شکار رہتے ہو۔ بے بسی کے جال میں جکڑے رہتے ہو۔تمہیں فرصت کے اوقات میسر نہیں۔حتی کہ تمہارا دن بھی تمہارا نہیں۔کیونکہ اس دن بھی تم محنت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہو۔ تمہیں ہر وقت فکروں کے بادل گھیرے رکھتے ہیں۔ ایک فکر ختم ہوتی ہے تو دوسری آ دبوچتی ہے۔ تمہارے کپڑوں سے ہر وقت پسینے کی بدبو آتی ہے۔

 یہ قدرتی بات ہے کہ حادثاتی اور فاصلاتی حدوں نے ہمیں ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تمہاری تعلیم و تربیت کا خاصا فقدان ہے۔ میں یہ ساری رام کہانی سننے کے بعد اس بات کو قبول کر لیتا ہوں کہ مزدور مزدور ہی رہتا ہے۔ خیر مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میرے ہی دم سے دنیا کی ہر عمارت ،گھر اور منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔لیکن میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتا رہوں گا۔ ہمیشہ کہتا رہوں گا دوسروں کی طرح میرا بھی خیال کرو۔میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں۔ میرے اور اپنے درمیان یہ فرق ختم کر دو کہ دنیا میری ہے۔کیونکہ دنیا کسی کی جاگیر نہیں۔خدا جس سے چاہے عزت دے۔اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ تم کم از کم میرے بنیادی حقوق کا تحفظ تو کر سکتے ہو۔میری بنیادی اجرت تو دے سکتے ہو۔ تاکہ میں بھی خوش و خرم رہ کر  روی زمین پر زندگی گزار سکوں۔یہی میری داستان فریاد ہے۔اگر فرصت ملے تو آج تھوڑا سا وقت نکال کر اسے سن لیجئے۔ مان لیجئے۔پھر اگلے سال ملاقات ہوگی۔ 

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ( واہ کینٹ)

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

جدید تر اس سے پرانی