مسیحی قوم کا فخر— رحمت اسحاق: تعلیم کی طاقت سے تقدیر بدلنے والا ایک روشن ستارہ

Rehmat Ashiq, who hails from a small village called "Kotli Muhammad Siddique" in Narowal, has today become a role model and a source of pride for the
 مسیحی قوم کا فخر— رحمت اسحاق: تعلیم کی طاقت سے تقدیر بدلنے والا ایک روشن ستارہ


اسلام آباد(فرحان رشید کوآرڈینیٹر نوائے مسیحی)

یہ کہانی ہے ایک ایسے نوجوان کی جو صرف خواب نہیں دیکھتا تھا، بلکہ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہر حد سے گزرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔

یہ کہانی ہے رحمت اسحاق کی—ایک ایسے پاکستانی مسیحی نوجوان کی جو تعصب، غربت، اور محرومی کے خلاف ایک خاموش مگر پُرعزم انقلاب تھا۔


ناروال کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹلی محمد صدیق سے تعلق رکھنے والا رحمت ایک سرکاری اسکول میں زیرِتعلیم تھا، جہاں اسے بارہا مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن استاد نے صرف اسے اور اس کے ایک اور مسیحی ساتھی کو بیت الخلا صاف کرنے کا حکم دیا—صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر۔ دل دکھا، مگر استاد کی عزت کی خاطر وہ خاموش رہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دل میں ایک سوال نے جنم لیا:

“کیا ہم صرف صفائی کے لیے ہیں، یا ہمارے ہاتھوں میں قلم بھی ہو سکتا ہے؟”


ایلیمنٹری کے بعد، دو مہینے فارغ وقت میں اس نے فٹبال سلائی کرنا سیکھی تاکہ گھر کی مالی مدد کر سکے۔ ہائی اسکول میں داخلہ لیا تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ سلائی کا کام بھی جاری رکھا۔


میٹرک کے بعد اسلام آباد کا رُخ کیا—بڑے خواب لے کر، مگر ایک تلخ حقیقت سے واسطہ پڑا۔

ایک مسیحی نوجوان کے لیے اچھی نوکری کاکام مشکل تھا۔ لیکن ایک انٹرنیشنل اسکول نے سویپر کی نوکری دی۔ اس نے قبول کی، مگر یہ سوچ کر کہ:

“یہ میری منزل نہیں، یہ میرا راستہ ہے۔ تعلیم ہی میری اصل طاقت ہے۔”


اسی دوران اس نے I.Com میں داخلہ لیا، کمپیوٹر اور انگلش لینگوئج کورسز کیے، اور کچی آبادیوں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔

پھر ایک آئی ٹی کمپنی میں ایڈمن آفیسر کی نوکری ملی جہاں ایک سال کام کیا۔ بعد ازاں ایک نیشنل اسکول میں نوکری ملی جہاں چار سال کام کیا اور اپنی گریجویشن بھی ساتھ مکمل کی۔


لیکن اس کے دل میں ایک اور خواب جنم لے چکا تھا:

“کیوں نہ ایک ایسا اسکول ہو جہاں مسیحی بچے عزت، تحفظ، اور برابری کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں؟”


اپنی ساری جمع پونجی لگا کر ایک کرائے کے مکان میں چھوٹا سا اسکول قائم کیا۔ اب اس کی سپورٹ کے لیے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکآ

دن کو اسکول، راتکو بارہ گھنٹے کال سینٹر میں نائٹ جاب، ساتھ ماسٹرز کی تعلیم—زندگی ایک امتحان بنی رہی۔ وہ دن میں۱۸ گنٹھے کام کرتا تھا 

وہ دن بھی آئے جب وہ 40 گھنٹے تک مسلسل کام کرتا رہا جب اس کے سالانہ امتڄان ہوتے۔ صحت متاثر ہوئی، لیکن حوصلہ نہیں ٹوٹا۔


آخرکار اسکول خود کفیل ہو گیا، ماسٹرز کے بعد 1.5 B.Ed میں A گریڈ کے ساتھ تعلیم مکمل کی، اور پھر بلور یونیورسٹی USA سے ایجوکیشنل لیڈرشپ میں ایک سالہ کورس کیا، جو ACSI نے اسپانسر کیا۔ 

کوریا سے انلان تھیالوجی بھی دو سال کی مکمل کی ZCMS سے


2025 میں ACSI نے رحمت کو امریکہ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی مسیحی تعلیمی قیادت کانفرنس میں مدعو کیا، جہاں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی۔

وہاں انہوں نے نجی اور سرکاری اسکولوں کا مشاہدہ کیا اور بہت کچھ سیکھا، جسے وہ پاکستان میں لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


رحمت اب IWPG جیسے عالمی امن کے ادارے کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں تاکہ امن کا پیغام بچوں کے ذریعے گھروں تک پہنچایا جا سکے۔


ان کا ماننا ہے:

“اگر تعلیم میری زندگی بدل سکتی ہے، تو یہ ہر نوجوان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تعلیم تعصب کا خاتمہ، برابری کی بنیاد، اور ترقی کا دروازہ ہے۔

اگر آپ پڑھے لکھے ہوں، تو دنیا کے دروازے آپ کے لیے کھل جاتے ہیں—چاہے وہ قومی سطح پر ہوں یا بین الاقوامی۔”


رحمت اسحاق کی کہانی صرف ایک فرد کی کامیابی نہیں، بلکہ وہ امید ہے جو ہر محروم دل میں جگ سکتی ہے۔

یہ پیغام ہے: خواب دیکھو، محنت کرو، ہمت نہ ہارو—خدا تمہارے ساتھ ہے سرفرازی وہی دیتا ہے


Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم