گزشتہ دنوں ایک پرائیویٹ سکیورٹی اہلکار کی عام شہری کی گاڑی پر فائرنگ کے واقعہ کی حقیقت سامنے آگئی دراصل یہ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ ایک مسیحی کمیونٹی کے عبادت کے لیے آئے بین الاقوامی پاسٹر صاحبان کے لیے ہائر کیے گئے تھے۔
بین الاقوامی پاسٹرز اور مقامی پولیس اس سے قبل گاڑیوں میں آگے نکل چکے تھے جبکہ یہ پرائیویٹ سکیورٹی اس قافلہ کے پیچھے تھی شہری کو گاڑی سائیڈ پر لگانے کے لیے کہا گیا جس پر اس نے اسے وی آئی پی کلچر کہتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر کرنے سے انکار کر دیا اس کے مطابق روڈ پر ہر شہری کا برابر کا حق ہے اور اگر کوئی وفد پرائیویٹ سکیورٹی کے ہمراہ جا رہا ہے تو وہ بھی شہری ہیں۔
اس کے اس موقف پر پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ نے اس کی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے جواب میں اس بہادر شخص نے گاڑی سے نکل کر بھرپور مزاحمت کی اور وی آئی پی کلچر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔
ابھی تک اس پرائیویٹ سکیورٹی فرم کو ہائر کرنے والے مقامی پادری یا بین الاقوامی پاسٹر صاحبان کے متعلق تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں کیا مقامی پاسٹر صاحبان میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ یہاں کی مسیحی کلیسیا کی روحانی ضروریات کو پورا کر سکیں اور اچھی خاصی رقم خرچ کر کے بین الاقوامی پاسٹرز کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ۔
مسیحیوں کو اس کلچر کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی کیونکہ ان گوروں کی عبادت کو سمجھنے کے لیے بھی ایک مترجم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بائبل مقدس اور مسیحی تعلیمات کی یہ ضروریات مقامی مذہبی رہنما بھرپور طریقے سے پوری کر سکتے ہیں۔
إرسال تعليق
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation