آزاد کشمیر میں قومی اور خاص مواقع کی تقریبات ہمیشہ سے ایک اہم روایت رہی ہیں، جن میں لوگ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم، یوم آزادی اور یوم اقلیت جیسے اہم مواقع پر آزاد کشمیر میں اقلیتوں کے حوالے سے کوئی سرکاری تقریب نہ ہونے کا سوال نہایت اہم ہے۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اس سال اقلیتوں کے لیے نہ تو کسی سرکاری تقریب کا اہتمام کیا گیا اور نہ ہی انہیں ان دنوں میں کسی قسم کی اہمیت دی گئی۔
پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی اقلیتیں قومی دنوں کے حوالے سے اپنی شراکت داری کا حق رکھتی ہیں۔ آزاد کشمیر کی اقلیتیں بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں، اور انہیں بھی وہی عزت اور حقوق ملنے چاہئیں جو باقی شہریوں کو حاصل ہیں۔ اس بار اگرچہ کچھ مقامی اقلیتی افراد نے انفرادی طور پر کچھ پروگراموں میں شرکت کی، لیکن یہ صرف رسمی شرکت تھی، جو اقلیتوں کی اصل حیثیت اور ان کے جائز حقوق کے ساتھ انصاف نہیں کرتی۔
پچھلی حکومتوں کے دور میں اقلیتوں کو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ خواہ وہ اقلیتی رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوں یا ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کی بات ہو، ماضی میں کچھ نہ کچھ اقدامات ضرور کیے جاتے تھے۔ تاہم، اس بار ان تقریبات میں اقلیتوں کا ذکر نہ ہونا مایوس کن ہے۔
یوم اقلیت، جو پاکستان میں ہر سال 11 اگست کو منایا جاتا ہے، کا مقصد ملک میں موجود اقلیتی برادریوں کی خدمات کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق کی پاسداری کے عزم کا اعادہ کرنا ہے۔ یہ دن اقلیتوں کی مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ پاکستان کا قیام ہی مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے اصول پر ہوا تھا۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2009 میں ہوا تھا، جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اس کی تجویز دی تھی۔ اس دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ 11 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔
شہباز بھٹی شہید، جو پاکستان کے پہلے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور تھے، نے یوم اقلیت کے قیام اور اس دن کو منانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے اپنی زندگی قربان کر دی۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں، یوم اقلیت کا منایا جانا عمل میں آیا، جسے آج بھی ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔
یوم اقلیت کے موقع پر ملک بھر میں مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں اقلیتی برادریوں کے حقوق کی پاسداری اور ان کے مسائل پر بات چیت ہوتی ہے۔ اس دن حکومتی اور غیر حکومتی ادارے، انسانی حقوق کے ادارے، اور اقلیتی نمائندے مختلف فورمز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اقلیتوں کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ تاہم، آزاد کشمیر میں یوم اقلیت کے حوالے سے سرکاری سطح پر تقریب کا انعقاد نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔
آزاد کشمیر میں اقلیتوں کا مسئلہ صرف ان دنوں کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ انہیں اپنی شناخت اور جائز حقوق کی تلاش ہے، اور جب وہ قومی اور خاص مواقع پر نظر انداز کیے جاتے ہیں، تو یہ ان کے لیے مزید مایوسی کا سبب بنتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور انہیں بھی وہی حقوق اور مواقع فراہم کرے جو باقی شہریوں کو حاصل ہیں۔
اقلیتوں کو ان کی شناخت اور حقوق دینے کا آغاز اسی وقت سے ہونا چاہیے، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ آئندہ ایسے پروگرامز کا انعقاد کرے جن میں اقلیتوں کی شرکت یقینی بنائی جائے اور ان کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ آزاد کشمیر میں اقلیتیں بھی پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، اور انہیں بھی وہی عزت اور مقام ملنا چاہیے جو باقی شہریوں کو حاصل ہے۔
آزاد کشمیر میں یوم اقلیت کے حوالے سے سرکاری تقریبات نہ ہونے سے اقلیتوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے، اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس رجحان کو بدلنے کے لیے اقدامات کرے۔ اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرنا اور انہیں قومی تقریبات میں شامل کرنا نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا بلکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دے گا اور تحریکِ آزادی کشمیر کو مزید اجاگر کرنے کا باعث ہوگا۔ اقلیتیں بھی پاکستان کا حصہ ہیں، اور ان کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation