![]() |
پرتگال میں قتل ہونے والا مسیحی نوجوان کون تھا؟ |
انتھونی شوکت کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی۔ وہ کینسر پر اپنی تعلیم اور تحقیق مکمل کرنا چاہتے تھے لیکن قسمت میں کچھ اور ہی تھا۔
اس کی تعلیم کے لیے اس کے والد نے اپنا گھر گروی رکھا تھا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو اور اس کی آگے کی زندگی پر سکون ہو۔
لاہور کے رہائشی انتھونی شوکت اپنی تعلیم اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ان کے اہل خانہ اب ان کی میت لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
پرتگالی پولیس کے مطابق انتھونی شوکت کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیا گیا۔
ان کے اہل خانہ نے پرتگال میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک ان کی میت پاکستان لانے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انتھونی شوکت کے ماموں نے بتایا کہ ان کا بھتیجا انتھونی شوکت پرتگال کے شہر پورٹو میں مقیم تھا۔
جب اہل خانہ نے 11 مئی 2024 کو انتھونی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا فون بند تھا۔ گھر والوں نے بہت کوشش کی لیکن تین دن تک رابطہ نہ ہو سکا۔
نعیم بھٹی کے مطابق "پھر ہم سے ان کے ایک دوست نے رابطہ کیا" کہ انتھونی لاپتہ ہو گیا ہے، جس کے بعد مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پاسپورٹ نمبر اور دیگر معلومات لینے کے بعد پولیس نے کہا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔
وہ روزانہ گھر والوں سے رابطہ کرتا تھا لیکن ایک ہفتہ قبل اس نے گھر سے رابطہ نہیں کیا۔ تو ہم سب پریشان ہو گئے۔ اس کے ای میل، واٹس ایپ اور دیگر نمبر بھی بلاک کیے جا رہے تھے۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن اس کے بعد ہم نے اس کے ایک دوست سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ کئی دن پہلے مارا گیا ہے۔ ڈکیتی کے دوران انتھونی کا فون، نقدی اور لیپ ٹاپ چھین کر لے گئے۔
انتھونی شوکت یوٹیوبر بھی تھا اور یوٹیوب پر بیرون ملک تعلیم اور اسکالرشپ سے متعلق ویڈیوز بناتا تھا۔
انتھونی شوکت کی پانچ بہنیں اور ایک بڑا بھائی ہے جو ذہنی مریض ہے۔ والد شوکت مسیح کی آنکھیں کمزور ہیں۔
نعیم بھٹی کے مطابق انتھونی شوکت سات یا آٹھ سال قبل سٹوڈنٹ ویزے پر سویڈن گیا تھا، جہاں اس نے بیالوجی میں ماسٹرز کیا، جس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی چلا گیا اور اب پرتگال میں کینسر پر ریسرچ کر رہا تھا۔
ان کے والد شوکت مسیح نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'میرے بیٹے کو پڑھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے گھر کا اوپر والا حصہ گروی رکھ کر اسے باہر بھیج دیا۔ آج تک ہمارے گھر کا وہ حصہ رہن پر ہے۔
انتھونی شوکت کے قتل کی خبر پھیلی تو لوگوں نے اسے سیاسی رنگ بھی دیا۔ نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتھونی شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے ریسرچ کرنے گئے تھے، یہ سراسر غلط ہے۔ انتھونی کا شوکت خانم سے کوئی تعلق نہیں۔
نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستانی سفارتخانے کو ای میل کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی آپ سے رابطہ کریں گے، لیکن ابھی تک ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔
انتھونی شوکت چھ ماہ قبل پاکستان آیا تھا اور 18 اپریل کو واپس آیا تھا۔ان کے والد نے کہا کہ 'ہم چاہتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آجائیں لیکن اب ہمیں ان کی لاش کا انتظار کرنا پڑے گا جب کہ حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ "
میری پانچ بیٹیاں ہیں اور ایک بڑا بیٹا ذہنی مریض ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن درخواست صرف اتنی ہے کہ ہمارے بچے کی لاش ہمارے پاس لائی جائے۔
اس کی تعلیم کے لیے اس کے والد نے اپنا گھر گروی رکھا تھا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو اور اس کی آگے کی زندگی پر سکون ہو۔
لاہور کے رہائشی انتھونی شوکت اپنی تعلیم اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے ان کے اہل خانہ اب ان کی میت لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
پرتگالی پولیس کے مطابق انتھونی شوکت کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیا گیا۔
ان کے اہل خانہ نے پرتگال میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک ان کی میت پاکستان لانے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انتھونی شوکت کے ماموں نے بتایا کہ ان کا بھتیجا انتھونی شوکت پرتگال کے شہر پورٹو میں مقیم تھا۔
جب اہل خانہ نے 11 مئی 2024 کو انتھونی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا فون بند تھا۔ گھر والوں نے بہت کوشش کی لیکن تین دن تک رابطہ نہ ہو سکا۔
نعیم بھٹی کے مطابق "پھر ہم سے ان کے ایک دوست نے رابطہ کیا" کہ انتھونی لاپتہ ہو گیا ہے، جس کے بعد مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پاسپورٹ نمبر اور دیگر معلومات لینے کے بعد پولیس نے کہا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔
وہ روزانہ گھر والوں سے رابطہ کرتا تھا لیکن ایک ہفتہ قبل اس نے گھر سے رابطہ نہیں کیا۔ تو ہم سب پریشان ہو گئے۔ اس کے ای میل، واٹس ایپ اور دیگر نمبر بھی بلاک کیے جا رہے تھے۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن اس کے بعد ہم نے اس کے ایک دوست سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ کئی دن پہلے مارا گیا ہے۔ ڈکیتی کے دوران انتھونی کا فون، نقدی اور لیپ ٹاپ چھین کر لے گئے۔
انتھونی شوکت یوٹیوبر بھی تھا اور یوٹیوب پر بیرون ملک تعلیم اور اسکالرشپ سے متعلق ویڈیوز بناتا تھا۔
انتھونی شوکت کی پانچ بہنیں اور ایک بڑا بھائی ہے جو ذہنی مریض ہے۔ والد شوکت مسیح کی آنکھیں کمزور ہیں۔
نعیم بھٹی کے مطابق انتھونی شوکت سات یا آٹھ سال قبل سٹوڈنٹ ویزے پر سویڈن گیا تھا، جہاں اس نے بیالوجی میں ماسٹرز کیا، جس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی چلا گیا اور اب پرتگال میں کینسر پر ریسرچ کر رہا تھا۔
ان کے والد شوکت مسیح نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'میرے بیٹے کو پڑھنے کا شوق تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے گھر کا اوپر والا حصہ گروی رکھ کر اسے باہر بھیج دیا۔ آج تک ہمارے گھر کا وہ حصہ رہن پر ہے۔
انتھونی شوکت کے قتل کی خبر پھیلی تو لوگوں نے اسے سیاسی رنگ بھی دیا۔ نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتھونی شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے ریسرچ کرنے گئے تھے، یہ سراسر غلط ہے۔ انتھونی کا شوکت خانم سے کوئی تعلق نہیں۔
نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستانی سفارتخانے کو ای میل کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی آپ سے رابطہ کریں گے، لیکن ابھی تک ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔
انتھونی شوکت چھ ماہ قبل پاکستان آیا تھا اور 18 اپریل کو واپس آیا تھا۔ان کے والد نے کہا کہ 'ہم چاہتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آجائیں لیکن اب ہمیں ان کی لاش کا انتظار کرنا پڑے گا جب کہ حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ "
میری پانچ بیٹیاں ہیں اور ایک بڑا بیٹا ذہنی مریض ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن درخواست صرف اتنی ہے کہ ہمارے بچے کی لاش ہمارے پاس لائی جائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation