میں نے بزرگوں سے سنا ہے کام والے بندے کی نشانی یہ ہوتی ہے وہ کام کے وقت سب سے آگے ہوتا ہے اور انعام کے وقت لوگ اسے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں وہ اس وقت بھی کسی اور کو آگے کر دیتا ہے۔
ہمارے پاکستان میں اشفاق احمد جو مشرق کے بڑے بزرگوں میں سے ہیں انہوں نے بتایا “بابا لوک” کسے کہتے ہیں یعنی بابا کی ٹرم کو انہوں نے متعارف کروایا ان کے نزدیک بابا وہ ہے جو آسانی پیدا کرتا ہے چھوٹا بابا چھوٹی آسانی پیدا کرتا ہے اور بڑا بابا بڑی آسانی پیدا کرتا ہے فادر آماتو الدینو بڑے بابوں میںَ سے ایک تھے۔
دھرتی سے وفا کیا ہے ، خدمت کیا ہے ، اور بندھوں کا دنیا میںَ آنے کا اوّل مقصد کیا ہے ؟ یہ تمام جواب مجھے ایک ہی شخص کے قریب ہو کر مل گئے۔
یہ پچھلی صدی اور آنے والے ہر دور کے قابل دید پریسٹ بابا الدینو آماتو او پی جنہوں نے22فروری 1931 کو اٹلی کے شہر مونصیتا میں آنکھ کھولی اور ابھی اٹھارہ ہی ماہ کے تھے تو باپ منتقل ہو گئے زمین کے جہان سے کسی دوسرے جہان میںَ اور پھر قسمت مزید مہربان ہوئی پانچ سال کے ہوئے تو ماں بھی چل بسیں اور بابا آماتو یتیم ہو گئے۔
ایک کمزور شخص اپنے غم کو داغ دار کرتا ہے مایوسی سے احساسِ کمتری سے جبکہ ایک بہادر اور پختہ مزاج شخص اپنے غم کو پاکیزہ رکھتا ساتھ ہی یہ تہہ کرتا ہے جو تکلیف اور غم م±جھے مِلا ہے میں اس تکلیف کا حل بنوں گا اور ا±س غم میں تسلی کا باعث بنوں گا۔
یہ عزم لے کر انہوں نے اپنا آپ واقف کیا ہے۔ بابا آماتو نے اپنی ابتدائی تعلیم مونصیتا کے سکول سے ہی حاصل کی۔
چودہ سال کی عمر میںَ آپ دومنکین سیمنری گئے وہاں چار سال کاہن کی بنیادی تعلیم حاصل کی ۴ اکتوبر 1949 کو آماتو الدینو نے عہد دیا رہبانہ زندگی کے لئیے اسی دوران ا±نہیں تھامس اکیوائینس کی تحاریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ تھامس اکیوائنیس کو اپنا پسندیدہ الہٰیات دان ، فلسفی اور مطالعہ میں آئیڈیل خیال کرتے تھے۔
کاہن ہونا اصل میںَ فقیر ہونا ہے جو انسان اپنے آپکو اس رہبانہ زندگی کے لئیے واقف کرے وہ اپنا گھر چھوڑتا ہے اپنے بہن بھائی چھوڑتا ہے لباس کی سفیدی کی بجائے اندر کی سفیدی کو اہمیت دیتا ہے اپنے اندر کے کوڑے کو اپنے شوق کی شدت سے جلاتا ہے اپنا بیڑہ غرق کرتا ہے تاکہ انسان ساتھیوں کا بیڑہ پار لگا سکے وہ تمام راستے ترک کرتا جو لذت انڈیلتے ہیں اصل میںَ وہ اپنی لذتوں کو تبدیل کرتا ہے انکو حقیقی لباس دیتا ہے نفس کی چلاکیوں سے بعض رہنے کو بابا آماتو الدینو اپنی اس ریاضت کے بعد 1957 ئ میںَ انسانی مزاجوں کے اجاڑ میںَ بہاروں کی ثبات کے لئیے مقرر ہوئے۔
بابا آماتو کا عقیدہ ہے !
“Put your trust in God and he will provide you”
اس عقیدہ کو رکھتے ہوئے انہوں نے ہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
اپنا دیس اپنے لوگ اپنی دھرتی اپنی ہوتی ہے افسوس کے ہم یہ جذبات بہت محدود رکھتے ہیں لیکن عاشق کا دیس اسکے محبوب کی پیدا کردہ پوری کائنات ہے وہ پاکستان ہو اٹلی ہو یا ہندوستان ہو بابا آماتو نے اپنے دیس کے بارے میںَ اپنا جذبہ روایتی نہیں رکھا انہوں نے انسانی معاشرے کو اپنا دیس قرار دیا اور انسانی خدمت کو اپنا عقیدہ مانا یہ عزم لے کر وہ اٹلی کو چھوڑ کر 1962 میں پاکستان چلے آئے کراچی میں آ کر اپنی سروسز کا آغاز کیا پھر چیچہ وطنی فیصل آباد جونسنا آباد اوکاڑہ خوش پور جیسے گاؤں میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنوائے۔
تعلیم کے فروغ کے لیئے انہوں نے بڑی محنت کی ہے کئی یتیم بچوں کو پالا کئی بیواو¿ں کی مدد کرتے رہے اوکاڑہ میںَ ٹی بی کا بہترین طرز پر ہسپتال بنایا جہاں اب ہر قسم کا علاج ہوتا ہے۔
لڑکیوں کے لئیے کالجز ، ہاسٹلز بنائے تاکہ ملکی ترقی ہو سکے کئی اندھوں کی آنکھیں بنے بلکہ وہ آنکھیں عطا کیں جو بہتوں کے پاس نہیں ہیں۔
آپ حقیقت میںَ ایک عاشق مزاج انسان تھے عاشق کی خوبی یہ ہوتی ہے وہ خدا کے عشق میں یعنی اسکی صفات پر اپنی ذات کو ہار دیتا ہے وہ دنیاوی معاشرے کو آسمانی معاشرہ بنا دیتا ہے۔
بابا آماتو یہ بات سے مکمل آگاہ تھے انہوں نے اسے عیاں کرنا ہے جس نے انہیں عیاں کیا ہے۔ فقیر صفت انسان لٹانے والے ہوتے ہیں اور یہ راز کثرت سے پا جاتے ہیں لٹانا رب کی صفتِ اوّل ہے ہم دیکھتے ہیں خدا نے کائنات تخلیق کی اور انسان پر وار دی۔
بابا آماتو یہ راز پا گئے تھے پھر انہوں اپنی ذات وار دی بے گھروں کو گھر دینے کے لئیے محنت کی جس کا اظہار ساہیوال آماتو کالونی ہے جو انہی کے نام پر ہے ، پھر انہوں نے اپنی آنکھیں صرف اپنے لئیے نہیں رکھیں بلکہ اِن آنکھوں سے کئی آنکھوں نے دیکھا ہے فادر جی نے فقط باہر کی چیزیں انسانیت کے لئیے واقف نہیں کیں بلکہ اپنا اندر لٹایا اپنے جذبوں کو واقف کیا ۔۔
آماتو کا مطلب محبت ہے “ میرے نزدیک محبت دیوار کے ایک طرف دیکھتے رہنے کی عظیم قابلیت کا نام ہے۔ بابا آماتو اس قول پر مکمل طور پر پورا اترے ہیں انہوں نے دیوار کے دوسری طرف نہیں دیکھا یعنی انہوں نے نہیں دیکھا میری بہن میرا آبائی گھر میرے ماں باپ یہاں اٹلی میںَ دفن ہیں میرا اپنا ماڈرن معاشرہ جہاں تمام قسم کی آسائشیں موجود ہیں بابا آماتو نے دیوار کی ایک طرف ہی دیکھا ہے یعنی میںَ نے اپنی ذات کو وقف کرنا ہے دوسروں کے لئیے اور بس۔
فادر آماتو مسیحی اداروں کے لئیے مشعلِ راہ ہیں مثبت خیال ، اپنے ارادوں سے وفاداری، اور انسانیت کو آسانی مہیا کرنا انکی اوّلین ترجیحات تھیں ۔ فادر آماتو کا ہم سے جدا ہونا دنیا بھر کی انسانیت کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
ہمارا سسٹم آج زیادہ تر ذاتی مفاد اور خود نمائی کی نظر ہو رہا ہے فادر جی نے ساری عمر اِن چلاکیوں سے پاک ہو کر بندھے کی آسانی کے لئیے کام کیا۔۔
دنیا عالمی وبا کے صدقے ایک ایسے انسان سے محروم ہوئی جس نے بِلا تفریق انسانیت کی خدمت کی۔
زندگی کے آخری تیس سال سے زیادہ عرصہ انہوں نے چک نمبر 6/4L اوکاڑہ میں گزارا جہاں انہوں نے لڑکوں کے لئیے سکول اور لڑکوں کا ہاسٹل بنایا جو خاص کر نابیناؤں کے لئیے تھا اسی طرح لڑکیوں کے لئیے سکول اور کالج ہسپتال جہاں ٹی بی کے مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا رہائش اور کھانا بھی میسر تھا لوگ فادر جی کو فرشتہ کہتے تھے کوئی گھٹن کی فضا میں ہوا کا جھونکا ، کوئی عظیم رہبر ، صوفی بابا ، درویش پر میںَ فادر جی کو فقیر کہوں گا خدا کا ڈاکیا کہوں گا جو خدا ڈاک دینے آیا تھا خدا کا منشی کہوں گا۔
فادر جی کے دائیں بائیں کے تمام لوگ انہی کی طرح نرم دل مخلص خالص مہربان دکھائی دیتے ہیں سسٹر لبنا ، انکل منشی ، گیٹ پر کھڑے جوان ، عادل بھائی ، شہباز بھائی ، صابر بھائی ، سسٹر عینی ، اور وہ سب جن کا نام نہیں لے رہا۔
انسانی احساس اس قدر تھا کے عادل بھائی جو اکاؤنٹ کو دیکھتے ہیں آخری لمحوں میں عادل کو اتفاق ہسپتال میں کہا عادل تم ادھر ہو بھائی وہاں سیلریز کون دے گا۔ تم جاؤ جا کر سٹاف کی تنخواہیں بناؤ۔
فادر جی دنیا میں زندہ رہنے کو آئے تھے وہ زندہ لوٹ گئے اور ہیمشہ زندہ رہیں گے ، ہم ان کا فیض چلائیں گے تاکہ انسانیت فیض یاب ہو سکے۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation