لاہور : سماجی و سیاسی اقلیتی رہنما ناصر ولیم نے 20اپریل 2020کو وفاقی وزیر اطلاعات کی طرف سے اعلان کردہ کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے خلاف مزاحمت کا ا علان کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے اعلان کیا تھا کہ کابینہ نے ایک اجلاس میں مذکورہ کمیشن کے قیام کی منظوری دے دی ہے جوکہ یہ اقدام 19جون 2014کو سپریم کورٹ کے پیرا 37کے آرڈر نمبر 4سے روگردانی ہے SC SMC 1/2014) )۔ جس میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک بینچ نے وفاقی حکومت کو یہ حکم دیا تھا کہ”اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک قومی کونسل تشکیل دی جائے۔ا قلیتوں کوآئین اور قانون کے تحت فراہم کردہ حقوق اور ضمانتوں پر عمل درآمدکی نگرانی کرنا مذکورہ کونسل کے منصب میں شامل ہو۔نیز کونسل کو یہ اختیار حاصل ہو کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے لئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تحفظ کی پالیسی سفارشات مرتب کرے۔
عدالت کے ان احکامات کی تعمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون سازی کے ذریعے ایک بااختیار، خود مختار اور ادارہ قائم نہیں کیا جاتا اورجس کو انکوائری کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر داد رسی کا اختیار حاصل نہ ہو ،لہذا ہمیں ایک علامتی یا فرضی کمیشن قابل قبول نہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے لئے وضع کئے گئے رہنما خطوط (پیرس ہدایات) کے مطابق کسی سیاسی عہدیدار کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ان کمشنوں کو حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی تائد حاصل ہونی چاہیے۔ جس کی مثال 2012ئ کے قومی انسانی حقوق کمیشن ایکٹ نمبر XVI کے قیام میں موجود ہے۔ درحقیقت گذشتہ 30 سالوں میں کئی بار حکومتوں نے انتظامی اختیارات کے ذریعہ ایسے ایڈہاک اقلیتی کمیشن تشکیل دیئے تھے، جو اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں کو کار کردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے۔ حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اہلیت کی بنیاد پر تقرری، اختیارات اور وسائل دیئے بغیر کوئی ادارہ اپنے مقصد اور اہداف میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہذا ہم اس فرضی ادارے کے قیام کو مسترد کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سے قبل انسانی حقوق کے لیے قومی کمیشن، خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن اور بچوں کے حقوق کے لیے کمیشن، سبھی باقاعدہ قانون سازی کے تحت قائم ہوچکے ہیں۔ ہم وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ممبران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد میں اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔کیونکہ حقوق کے تحفظ کی خاطر بنے والے کسی ادارہ کے لئے ایک مضبوط قانونی بنیاد ہونی چاہیے۔
عدالت کے ان احکامات کی تعمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون سازی کے ذریعے ایک بااختیار، خود مختار اور ادارہ قائم نہیں کیا جاتا اورجس کو انکوائری کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر داد رسی کا اختیار حاصل نہ ہو ،لہذا ہمیں ایک علامتی یا فرضی کمیشن قابل قبول نہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے لئے وضع کئے گئے رہنما خطوط (پیرس ہدایات) کے مطابق کسی سیاسی عہدیدار کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ان کمشنوں کو حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی تائد حاصل ہونی چاہیے۔ جس کی مثال 2012ئ کے قومی انسانی حقوق کمیشن ایکٹ نمبر XVI کے قیام میں موجود ہے۔ درحقیقت گذشتہ 30 سالوں میں کئی بار حکومتوں نے انتظامی اختیارات کے ذریعہ ایسے ایڈہاک اقلیتی کمیشن تشکیل دیئے تھے، جو اقلیتوں کے لیے انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں کو کار کردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے۔ حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اہلیت کی بنیاد پر تقرری، اختیارات اور وسائل دیئے بغیر کوئی ادارہ اپنے مقصد اور اہداف میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہذا ہم اس فرضی ادارے کے قیام کو مسترد کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سے قبل انسانی حقوق کے لیے قومی کمیشن، خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن اور بچوں کے حقوق کے لیے کمیشن، سبھی باقاعدہ قانون سازی کے تحت قائم ہوچکے ہیں۔ ہم وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ممبران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد میں اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔کیونکہ حقوق کے تحفظ کی خاطر بنے والے کسی ادارہ کے لئے ایک مضبوط قانونی بنیاد ہونی چاہیے۔
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation