تحریر شکیل انجم ساون
2009 کے گوجرہ فسادات پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گوجرہ قصبے میں مسیحیوں کو نشانہ بنانے والے حملوں کا ایک سلسلہ تھا ۔ ان کے نتیجے میں ایک بچے سمیت آٹھ مسیحیوں کی موت واقع ہوئی۔
پس
منظر
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں
واقع گوجرہ میں مسیحیوں کی نسبتاً زیادہ تعداد ہے۔
اقلیتوں کو امتیازی قوانین کے ہاتھوں دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتاہے ،
جس میں توہین مذہب کا قانون بھی شامل ہے۔ قانون کا اکثر ذاتی مفادات اور دشمنی طے
کرنے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
حملے
گوجرہ
فسادات کے یہ حملے پاکستان کے ضلع قصور میں مسیحیوں سے تعلق رکھنے والے 100 گھروں
پر ہجوم کے حملے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد ہوئے ہیں۔
بتایا
گیا کہ مختار مسیح، طالب مسیح اور ان کے
بیٹے عمران مسیح نے شادی کی تقریب میں مبینہ طور پرقرآنی
آیات کندہ کاغذات کی بے حرمتی کی۔ ڈسٹرکٹ
پولیس آفیسر انکیسار خان نے کہا کہ بغیر کسی گرفتاری کے مختار مسیح، طالب مسیح اور
عمران مسیح کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-B کے تحت مقدمہ درج
کیا گیا ۔ یکم اگست 2009 کو ایک ہجوم نے
چالیس مکانات اور ایک چرچ کو نذر آتش کر دیا تھا۔
تمام متاثرین کو زندہ جلا دیا گیا۔
18 دیگر زخمی ہوئے۔ ٹیلی ویژن
فوٹیج میں جلتے ہوئے مکانات اور گلیوں کو دیکھا جاسکتا تھا۔
مرنے والوں کی شناخت 50 سالہ حمید مسیح، 20 سالہ
آسیہ بی بی، 19 سالہ آصفہ بی بی، 22 سالہ امامیہ بی بی، 7 سالہ موسیٰ، 40 سالہ
اخلاص مسیح اور 50 سالہ پروین کے نام سے ہوئی ۔
رفیق مسیح کے مطابق حملہ آورمسیحی
مخالف نعرے لگا ر تھے اور ہمارے گھروں پر حملہ کر ر ہے تھے۔" رہائشیوں نے
بتایا کہ پولیس ایک طرف کھڑی رہی جب کہ ہجوم نے ہنگامہ آرائی کی۔ رفیق مسیح نے بتایاکہ
ہم تحفظ کی بھیک مانگتے ر لیکن پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ حکومت پاکستان کے مطابق
انہیں اطلاع ملی تھی کہ مسلح 'شرپسندوں' کا ایک گروہ، نقاب پوش چہروں کے ساتھ جھنگ
سے آیا ۔
نتیجہ
اس وقت
کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ جو اس وقت پنجاب کے سیکیورٹی معاملات کے بھی ذمہ دار
تھے، نے حملے کی مذمت کی اور تحقیقات کا حکم دیا۔ وفاقی حکومت کے حکم پر پاکستان
رینجرز کی نفری شہر میں بھیج دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ قرآن کی بے حرمتی نہیں ہوئی تھی یہ محض ایک
افواہ تھی جس کا فائدہ ریاست مخالف عناصر نے افراتفری پھیلانے کے لیے اٹھایا۔
اس وقت
کے صدر آصف علی زرداری نے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر
برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو ہدایت کی۔حالات معمول پر آنے تک گوجرہ میں ہی رہیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات
کرنے کا بھی کہا۔ پولیس نے ان حملوں کے
بعد 17 معلوم اور 783 نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمات درج کر لیے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب
شہباز شریف نے ہر سوگوار خاندان کے لیے امداد دینے کا اعلان کیا
ہنگامہ
آرائی کے بعد شہداء کے لواحقین نے گوجرہ سے گزرنے والی ملتان فیصل آباد ریلوے لائن
کو 6 گھنٹے تک بلاک کر کے جاں بحق ہونے والوں کے تابوت پٹریوں پر رکھ کر احتجاج
کیا ۔ اتوار کو مظاہرین کے نمائندوں نے احتجاج ختم کرنے کے لیے حکومتی وزراء سے
بات چیت کی۔
ریلوے
کی ناکہ بندی اس وقت ختم ہوئی جب اس وقت
کے صوبائی وزیر کامران مائیکل نے مظاہرین کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی
کاپی دکھائی جس میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر اور ڈویژنل پولیس آفیسر (ڈی پی او) پر
غفلت کا الزام لگایا گیا۔
صوبائی
وزیر برائے اقلیتی امور کامران مائیکل جو خود مسیحی ہیں، نے کہا کہ "مسیحیوں
میں بہت زیادہ خوف تھا "، انہوں نے مزید کہا کہ "شہر میں حالات کشیدہ تھے،
تاہم صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی ۔
مسیحی
اسکول ان حملوں کے متاثرین کے سوگ کے لیے تین دن کے لیے بند کر دیے گئے۔
4 اگست
کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شہر کا دورہ کیا اور شہر کے ایک چرچ سے میڈیا سے
بات کرتے ہوئے تشدد کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور وعدہ کیا کہ مسلم لیگ کے
ارکان بحالی کے لیے علاقے میں رہیں گے۔
إرسال تعليق
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation