بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ، اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

 تحریر گلیڈس شبانہ   
 
                          
 23 اپریل بروز ہفتہ کیتھڈرل سکول نمبر1 کرسچین ٹا ؤن سیالکوٹ میں ملک کے مایہ ناز مسیحی شاعر ،موسیقار، ڈرامہ نگار اور دانشور جناب پرویز بزمی صاحب کی میموریل سروس کی عبادت ہوئی۔


 اس پروقار عبادت میں ریورنڈ فادر جاوید اکرم ،ریورنڈفادر اشرف گل، ریورنڈ فادر فیصل پرویز ،ریورنڈ فادر عابد البرٹ اور لاہور سے ریورنڈ فادر قیصر شامل تھے ۔ یاد رہے کہ فادر قیصر صاحب بزمی صاحب کے گیتوں کی ریکارڈنگ کرواتے تھے۔ ان کا تعلق ویوز سٹوڈیوز لاہور سے ہے۔



پاک ماس کی قربانی گذرانی گئی اور بزمی صاحب کی معفرت کے لیے دعا کی گئی۔ ریورنڈ فادر اکرم جاوید اور ریورنڈ فادر اشرف گل نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی فنی اور ایمانی زندگی کے بارے میں حاضرین کو بتایا۔ ریورنڈ فادر اکرم جاوید نے ان کے لافانی اشعار پڑھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔


پروفیسر عارف صاحب(بزمی صاحب کے چھوٹے بھائی )نے بزمی صاحب کے دنیا سے رخصت ہونے پر پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ بزمی صاحب نہ صرف ان کے بڑے بھائی تھے بلکہ وہ محسن، استاد، سہولت کار اور رہنما بھی تھے۔ انہوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ایک ایسا تابندہ ستارہ تھے جن کی تابندگی سے بہت سی زندگیاں چمک اٹھیں۔ان کے بہت سے سے شاگرد تھے جن کو انہوں نے شاعری وموسیقی کی تعلیم دی۔



بزمی صاحب کا اس جہان ِ فانی سے چلے جانا نہ صرف خاندان کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے بلکہ پوری مسیحی کمیونٹی کا بھی کبھی نہ پورا ہونے والا نقصان ہے۔ ان کی کمی کو کوئی پورا نہیں کر سکتا بزمی صاحب اپنے آپ میں ایک بزم تھے۔ وہ بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی فنی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ان کے بے شمار پرستار جو اپنے اشکوں کا تحفہ لے کر دور دراز سے انہیں خراج عقیدت پیش کر نے کے لیےآئے ہیں ۔ ان میں نہ صرف ان کے دوست احباب بلکہ دنیاِ فن کی مشہور شخصیات بھی ان میں شامل تھیں۔



بزمی صاحب ایک ایسی پرکشش شخصیت تھے اگر ایک بار کوئی ان سے ملتا تو دوبارہ ملنے کا اسے اشتیاق رہتا۔ بزمی صاحب اپنے فن کا جو اثاثہ چھوڑ گئے ہیں اس کی بدولت بزمی صاحب ہمیشہ ہمارے  دلوں میں زندہ رہیں گے ایسی شخصیت کبھی مرتی نہیں بلکہ امر ہو جاتی ہے۔


    بزمی اس کی چاہتوں کو ہم نے یوں لوٹا دیا

    سانس کم  ہوتے گئے وہ قرض ادا ہوتا  گیا

Comments

Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation

أحدث أقدم