گزشتہ ہفتے کے دوران وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی اور لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے تبدیلی مذہب کے حوالے سے فیصلے مذہبی حلقوں اور اقلیتوں میں زیر بحث رہے۔ اقلیتوں میں ان فیصلوں کے ردعمل میں مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔
وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے جبری تبدیلی مذہب کے تنآظر میں وزارت انسانی حقوق کی طرف سے تیار کردہ بل کے ڈرافٹ کو اعتراضات لگا کر واپس کردیا۔
مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر پیر نور الحق قادری نے اس بل کو غیر شرعی، غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جج کے سامنے پیش ہونا، 90 دن انتظار اور 18 سال عمر کی شرائط قانونی ، مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔
انہوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات ہوتے ہیں مگر انہوں نے ان کی تعداد کم البتہ بدنامی کا باعث قرار دئے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا۔
دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ نے 17 سالہ چشمان کی حوالگی کے لیے والد کی دی گئی درخواست کو خارج کردیا اور مذہب تبدیلی کے لیے 18 سال کی عمر کی بجائے ذہنی بلوغت کو پیمانہ قراردیا۔
اسی عدالت نے گزشتہ مذہب تبدیلی کے کیس میں پمی مسکان نامی بچی کو والدہ کے حوالے کردیا تھا کیونکہ اس کی عمر ابھی 18 سال نہیں تھی۔ اسی کیس کو دیکھتے ہوئے پرُامید والد نے چشمان کی حوالگی کے لیے درخواست دی تھی۔
عدالت کا موقف ہے کہ چشمان نے مجسٹریٹ کے روبرو بلا جبر مذہب تبدیلی کا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔ لہذا بچی کو والدین کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
ان دونوں فیصلوں سے اقلیتی راہنماؤں کے بیانات میں مایوسی اور بے چینی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ اقلیتوں کی طرف سے ان اقدامات کو آئین کے آرٹیکل 20 کی نفی قرار دیا ہے۔
مینارٹیز الائنس پاکستان کی طرف سے جاری بیانات اور اقلیتی راہنما لالہ روبن ڈینیئل کی دیگر اقلیتی راہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس ان اقدامات کا ردعمل ہیں۔
إرسال تعليق
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation