انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار کوئی بھی تنظیم ہو۔اگر ان کا مقصد حیات خدمت کے نام سے عبارت ہے۔تو میرا قلم ان کی ستائش کے لیے رواں ہو جاتا ہے۔مطلب چاپلوسی یا جھوٹ کو عام کرنا مقصود نہیں بلکہ ان کے رواں جذبوں کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔کیونکہ دنیا خود غرضی کے خول میں اس قدر سخت ہو چکی ہے کہ مشکل وقت میں خون کے رشتے بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔
اسی سلسلے اور خدمت خلق کی روح سے معمور دو تنظیموں کی مشترکہ کاوش انسانیت اور بحالی معذوراں کے لیے سرگرم ہے۔ ان کی عظیم خدمت اور حقائق پر مبنی نظریاتی احساس نے مجھے اس حد تک متاثر کیا تاکہ میں فرض شناس نوکر بن کر ان کی خدمت کو عوام الناس تک پہنچا دوں۔میری ذاتی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے علاقہ میں ہونے والی تقریبات خواہ وہ مذہبی ہوں ، خواہ ثقافتی ہوں ،خواہ ادبی ہوں یا فلاحی جذبہ رکھتی ہوں۔ان کے اغراض و مقاصد کو جو حب الوطنی کی بھرپور عکاسی کر رہے ہوں۔پرنٹ میڈیا کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کروں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے خدمتیں طرح طرح کی ہیں۔اسی طرح نعمتیں بھی طرح طرح کی ہیں۔ہر کسی کو خدا نے الگ الگ نعمتیں اور برکتیں بخشی ہیں۔وہ اسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی نعمت کو بروئے کار لا کر انسانیت کی خدمت کے لیے سر گرم بن جاتا ہے۔اقوام متحدہ نے عالمی دنوں کی بنیاد رکھ کر لوگوں کو عوام الناس کی خدمت کے لیے ابھارا ہے۔ لوگوں کی غربت ، معاشی حالت ، مجبوریاں ، معذوریاں شعور کی خوردبین سے دیکھ کر جذبوں کو فروغ دیا ہے۔حالات اور وقت تو کسی کو بھی مجبوری کے کنویں میں پھینک سکتے ہیں۔ کیونکہ وقت آتا اور چلا جاتا ہے۔انتظار نہیں کرتا۔مہلت نہیں دیتا۔بلکہ یہ یکساں رفتار کے ساتھ ہر دن کی منزل طے کرجاتا ہے۔روز مرہ زندگی میں نہ جانے کتنے حادثات رونما ہوتے ہیں؟ کتنی زندگیاں لقمہ اجل بن جاتی ہیں؟ کتنے لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟ نہ جانے کتنے لوگ حادثات کے باعث معذور بن جاتے ہیں؟ ایسے لوگ اپنی ملازمتوں سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔ انہیں معذوری کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا دیمک بھی چاٹنے لگ جاتا ہے۔
ان کے گھروں کے چولہے بجھ جاتے ہیں۔لوگ انہیں ناکارہ سمجھتے ہیں۔نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لیکن خدا نے دنیا میں کچھ ایسے رحم دل لوگوں کو خدمت خلق کے جذبہ سے بلند خیالی کا تحفہ دے رکھا ہوتا ہے۔عموما ان کا دل رحم کی دولت سے دھڑکتا ہے۔ میں ضرور ذکر خیال کروں گا۔ "سوسائٹی فار اسپیشل پرسن کا"۔اس سوسائٹی کی پریزیڈنٹ محترمہ زاہدہ قریشی صاحبہ ہیں جو خود بھی معذور ہیں۔وہ ایک خاص رویا کے تحت بحالی معذوراں کے لیے ویل چیئر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کے ساتھ فلاح و بہبود کے لیے کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایام جیسا چرچ مالی معاونت میں پیش پیش ہے۔اس این جی اوز کے کنٹری مینجر جناب زمران جیمز ہیں جو حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر تعلیم و تربیت کے لیے مختلف سوسائٹیز کو فعال بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے مختلف اضلاع اور شہروں میں جا کر فلاح و بہبود کے مختلف منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ مثلا ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن ، میٹھے پانی کے کنویں اور معزوروں کی بحالی کے لیے ویل چیئر کا انتظام ان کی اولیں خدمت کا حصہ ہے۔انہوں نے اپنے خدمت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ضلع اٹک اور تحصیل حسن ابدال میں ایک پروگرام مرتب کیا۔یہ پروگرام پاکستان پیپلز پارٹی پبلک سیکٹریٹ حسن ابدال میں منعقد کیا گیا۔اس پروگرام کو منعقد کروانے میں جناب ذولفقار حیات اور اشعر حیات حیات کا خصوصی تعاون شامل ہے۔پروگرام بروز جمعہ 23 مئی 2025ء کو شام پانچ بجے پاکستان پیپلز پارٹی پبلک سیکٹریٹ حسن ابدال میں منعقد کیا گیا۔پروگرام کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کے صاحبزادے محمد فیضان سردار سلیم حیدر تھے۔مہمان خصوصی میں سوسائٹی فار سپیشل پرسن ویل چیئرز کی پریزیڈنٹ محترمہ زاہدہ قریشی تھیں۔ مہمانان اعزاز میں جناب اشعر حیات صاحب اور سردار زولفقار حیات صاحب تھے۔ پروگرام کا آغاز قران پاک کی تلاوت سے ہوا۔ حاضرین کے لیے پاسٹر پرویز ایم نذیر نے دعا کی۔ تمام حاضرین کے لیے برکت چاہی۔سردار فیضان سلیم حیدر خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کی خدمت اور حب الوطنی پاکستان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اقلیتوں نے قیام پاکستان سے لے کر تا حال اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔لہذا ان کی خدمت سے انکار ممکن نہیں کیا جا سکتا۔یہ پاکستان کے وفادار شہری ہیں جنہوں نے پاکستان کے ہر شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔پاکستان کے کسی بھی شعبے کی بات کریں ۔مثلا تعلیم کا شعبہ ہو ، طب کا شعبہ ہو ، فنی موسیقی کی بات ہو ، دفاع وطن کا معاملہ ہو۔انہوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے۔لہذا ان کی قربانیوں اور جذبوں کو سلوٹ پیش کیا جاتا ہے۔انسانیت کے درد میں بھی یہ پیش پیش ہیں۔آج کی تقریب بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ حب الوطنی کے جذبہ سے کس قدر سرشار ہیں؟ سابقہ ایم این اے ٹکٹ ہولڈر جناب سردار ذوالفقار حیات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا۔اقلیتوں نے وفادار پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔چنانچہ تاریخ کے کسی دور میں بھی ان کی خدمات فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ سردار اشعر حیات خان نے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ وصف مسیحوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے بلا رنگ، نسل، مذہب قوم و ملت کی خدمت کی ہے۔اس طرح برادر گیری کاوین نے یسو ع کے مشن پر بات کرتے ہوئے کہا۔" یہ خدمت ہم کسی پر احسان نہیں کر رہے بلکہ اپنے خداوند کی تابعداری کو پورا کر رہے ہیں۔جب تک ہم زندہ ہیں ۔اپنے نجات دہندہ کے اس مشن کو جاری و ساری رکھیں گے۔زمران جیمز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔یہ آپ سب لوگوں کی محبت ہے جو ہمیں کھینچ کر لائی ہے۔کیونکہ محبت فتنوں کو نہیں بلکہ دلوں کو جوڑتی ہے۔مسیح نے ہم سب کو محبت کا درس دیا ہے۔ہم سب اس مشن کا حصہ ہیں۔پاکستان کسٹمائز ویل چیئر کی پریزیڈنٹ محترمہ زاہدہ قریشی نے اس بات کو عیاں کیا کہ دیکھو میں نے معذوری کو کمزوری بننے نہیں دیا۔ بلکہ ہمت مرداں خدا مرداں کے تحت آج آپ کے سامنے ہوں۔اس مشن کو اگے لے کر چل رہی ہوں۔میری ٹیم میرے ساتھ ہے۔میرا حوصلہ بلند ہے۔میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے ہر معذور کے پاس اپنی ویل چیئر ہو تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ تاکہ وہ بھی معاشرے میں عزت و وقار کے ساتھ جی سکے۔وہ جہاں بھی جانا چاہے اپنی ویل چیئر کے ساتھ جا سکے۔اس کی سفری بندشیں ختم ہو جائیں۔اب تک ہم پاکستان کے مختلف اضلاع میں 800 سے زائد ویل چیر تقسیم کر چکے ہیں۔ یہی ہمارا منشور و مشن ہے۔ ہم سب مل کر اس جذبہ و خدمت کو جاری رکھنا چاہیے۔بس آپ لوگوں کا تعاون اور خلوص چاہیے جو ہمارے جذبوں کو جلا بخشتا رہے۔ واضح ہو حسن ابدال میں قریبا 50 مزدور افراد کو ویل چیئر دی گئیں۔ان کی معزوری کو ختم کر دیا گیا۔سب لوگوں نے اپنی اپنی ویل چیئر حاصل کی۔دونوں تنظیموں کے سربراہان کا شکریہ ادا کیا۔تقریب کے بعد تمام مہمانوں کو عشائیہ دیا گیا۔ اگر ہم واقعی زندگی میں خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں تو ہمیں ایسے منصوبوں کی تلاش کرنی چاہیے جن میں فلاح بہبود کے عناصر شامل ہوں۔جیسے بہت سے مشنری اداروں نے تعلیم، صحت، چرچ سوسائٹیز بنا کر لوگوں کی دہلیز پر خدمت کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ غرباء کے علاج و معالجہ کے لیے بہت سی فری ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ابھی بھی بہت سے ایسے فلاحی منصوبوں کی ضرورت ہے جہاں لوگوں کی مدد کر کے ان کو معاشرے کا کار آمد رکن بنایا جا سکتا ہے۔ہم اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے فلاحی منصوبوں کے ذریعے سے بھی اپنی قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ان کی احساس کمتری دور کر سکتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ندامت کی سلوٹیں دور کر سکتے ہیں۔ آئیں اس مشن کو اگے بڑھاتے ہوئے اپنے علاقوں میں ایسے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں۔
( واہ کینٹ)
ایک تبصرہ شائع کریں
Show discipline and civility while commenting and don't use rude words. Thanks for your cooperation